تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تنے کو پھل سمیت فروخت کرنا جائز ہے۔ اس صورت میں معاملہ خریدار پر موقوف ہوگا۔ اگر اس نے درخت خریدتے وقت شرط لگادی کہ پھل سمیت لے رہا ہوں تو وہ شرط نافذ ہوگی اور اگر شرط کے بغیر سودا ہوا ہے تو موجودہ پھل پہلے مالک کا ہوگا، لیکن ہمارے ہاں رواج ہے کہ اگر آم کا باغ فروخت ہوا ہے تو جو کچھ بھی ہوگا وہ خریدار کا ہوگا، یعنی معاشرتی طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ جو کچھ فروخت ہوا ہے وہ خریدار کا ہے۔ (2)بہرحال جھگڑے کی صورت میں حدیث کے مطابق فیصلہ ہوگا کہ اگر درخت فروخت ہوئے اور کسی قسم کی شرط نہیں لگائی گئی تو درختوں کا پھل فروخت کرنے والے کا ہے ہاں، اگر خریدار نے شرط لگادی تو پھر وہی پھل کا حق دار ہوگا۔ والله أعلم.