قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابُ شِرَاءِ المَمْلُوكِ مِنَ الحَرْبِيِّ وَهِبَتِهِ وَعِتْقِهِ)

تمہید کتاب عربی

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسَلْمَانَ: «كَاتِبْ»، وَكَانَ حُرًّا، فَظَلَمُوهُ وَبَاعُوهُ، وَسُبِيَ عَمَّارٌ، وَصُهَيْبٌ، وَبِلاَلٌ وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ، فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ} [النحل: 71]

2219. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِصُهَيْبٍ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَدَّعِ إِلَى غَيْرِ أَبِيكَ فَقَالَ صُهَيْبٌ مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي كَذَا وَكَذَا وَأَنِّي قُلْتُ ذَلِكَ وَلَكِنِّي سُرِقْتُ وَأَنَا صَبِيٌّ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور نبی کریمﷺ نے سلمان فارسی ؓ سے فرمایا تھا کہ اپنے ( یہودی ) مالک سے ” مکاتبت “ کرلے۔ حالانکہ سلمان رضی اللہ عنہ اصل میں پہلے ہی سے آزاد تھے۔ لیکن کافروں نے ان پر ظلم کیا کہ بیچ دیا اور اس طرح وہ غلام بنادئے گئے۔ اسی طرح عمار، صہیب اور بلال رضی اللہ عنہم بھی قید کرکے ( غلام بنا لیے گئے تھے اور ان کے مالک مشرک تھے ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ ہی نے تم میں ایک کو ایک پر فضیلت دی ہے رزق میں۔ پھر جن کی روزی زیادہ ہے وہ اپنی لونڈی غلاموں کو دے کر اپنے برابر نہیں کردیتے۔ کیا یہ لوگ اللہ کا احسان نہیں مانتے۔ “ تشریح : کہ اس نے مختلف حالات کے لوگ پیدا کئے۔ کوئی غلام ہے کوئی بادشاہ، کوئی مالدار ہے کوئی محتاج، اگر سب برابر اور یکساں ہوتے تو کوئی کسی کا کام کا ہے کو کرتا۔ زندگی دوبھر ہوجاتی۔ پس یہ اختلاف حالات اور تفاوت درجات حق تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ اس آیت سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ کافر اپنی لونڈی غلاموں کے مالک ہیں اور ان کی ملک صحیح ہے کیوں کہ ان کی لونڈی غلاموں کو ماملکت ایمانہم فرمایا۔ جب ان کی ملک صحیح ہوئی تو ان سے مول لینا درست ہوگا۔ ( وحیدی ) کتابت اس کو کہتے ہیں کہ غلام مالک کو کچھ روپیہ کئی قسطوں میں دینا قبول کرے۔ کل روپیہ ادا کرنے کے بعد غلام آزاد ہو جاتا ہے۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو کافروں نے غلام بنا رکھا تھا۔ مسلمانوں نے ان کو خرید کر آزاد کردیا۔ حدیث سلمان رضی اللہ عنہ میں مزید تفصیل یوں آئی ہے : ثم مر بی نفر من کلب تجار فحملونی معہم حتی اذا قدموا بی و ادی القری ظلمونی فباعونی من رجل یہودی الحدیث یعنی میں فارسی نسل سے متعلق ہوں۔ ہوا یہ کہ ایک دفعہ بنوکلب کے کچھ سوداگر میرے پاس سے گزرے اور انہوں نے مجھے اٹھا کر اپنے ساتھ لگالیا۔ اور آگے چل کر مزید ظلم مجھ پر انہوں نے یہ کیا کہ مجھ کو ایک یہودی کے ہاتھ بیچ کر اس کا غلام بنا دیا۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ عربی عنسی ہیں مگر ان کو اس لیے غلاموں میں شمار کیا گیا ہے کہ ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہا نامی قریش کی لونڈدیوں میں سے تھیں۔ ان کے شکم سے یہ پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام یاسر رضی اللہ عنہ ہے۔ قریش نے ان سب کے ساتھ غلاموں جیسا معاملہ کیا۔ یاسرؓ بنی مخزوم کے حلیف تھے۔ مزید تفصیلی حالات یہ ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ عنسی ہیں۔ بنی مخزوم کے آزاد کردہ اور حلیف ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوئی کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے والد یاسر ؓ مکہ میں اپنے دو بھائیوں کے ساتھ جن کا نام حارث اور مالک تھا، اپنے چوتھے گم شدہ بھائی کی تلاش میں آئے۔ پھر حارث اور مالک تو اپنے ملک یمن کو واپس چلے گئے۔ مگر یاسر مکہ میں مقیم ہو گئے۔ اور ابوحذیفہ بن مغیرہ کے حلیف بن گئے۔ ابوحذیفہ نے ان کا نکاح اپنی باندی سمیہ رضی اللہ عنہا نامی سے کردیا۔ جن کے بطن سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ ابوحذیفہ نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو آزاد کردیا۔ یہ ابتداءہی میں اسلام لے آئے تھے۔ اور ان کمزور مسلمانوں میں سے ہیں جن کو اسلام سے ہٹانے کے لیے بہت ستایا گیا یہاں تک کہ ان کو آگ میں بھی ڈال دیا جس سے انہیں اللہ نے مرنے سے بچا لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کی طرف سے گزرتے ہوئے ان کی تکالیف کو دیکھتے تو آپ کا دل بھر آتا۔ آپ ان کے جسم پر اپنا دست شفقت پھیرتے اور دعا کرتے کہ اے آگ تو عمار پر اسی طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا جس طرح تو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ہو گئی تھی۔ یہ مہاجرین اولین میں سے ہیں۔ غزوہ بدر اور جملہ غزوات میں شریک ہوئے۔ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ 93 سال کی عمر میں37ھ میں جنگ صفین ہی میں شہید ہوئے۔ حضرت صہیب بن سنان عبداللہ بن جدعان تیمی کے آزاد کردہ ہیں۔ کنیت ابویحییٰ، شہر موصل کے باشندے تھے۔ رومیوں نے ان کو بچپن ہی میں قید کر لیا تھا۔ لہٰذا نشو و نما روم میں ہوئی۔ رومیوں سے ان کو ایک شخص کلب نامی خرید کر مکہ لے آیا۔ جہاں ان کو عبداللہ بن جدعان نے خرید کر آزاد کر دیا۔ پھر یہ عبداللہ بن جدعان ہی کے حلیف بن گئے۔ آنحضرتﷺ جب دار ارقم میں تھے تو عمارؓ نے اور انہوں نے ایک ہی دن اسلام قبول کیا۔ مکہ شریف میں ان کو بھی بہت تکلیف دی گئی، لہٰذا یہ مدینہ کو ہجرت کرگئے۔۔ 80ھ میں بعمر90 سال مدینہ ہی میں انتقال فرمایا۔ اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے۔ حضرت بلال ؓ کے والد کا نام رباح ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے آزاد کردہ مشہور معزز صحابی بلکہ موذن رسول ﷺ ہیں۔ یہ بھی مومنین اولین میں سے ہیں۔ مکہ میں سخت تکالیف برداشت کیں مگر اسلام کا نشہ نہ اترا، بلکہ اور زیادہ اسلام کا اظہار کیا۔ تمام غزوات نبوی میں شریک رہے۔ ان کو ایذا پہنچانے والا امیہ بن خلف تھا جو بے حد سنگ دلی سے ان کو قسم قسم کے عذابوں میں مبتلا کیا کرتا تھا۔ اللہ کی مشیت دیکھئے کہ جنگ بدر میں امیہ بن خلف ملعون حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہی کے ہاتھوں سے قتل ہوا۔ عمر کا آخری حصہ شام میں گزرا۔ 63 سال کی عمر میں 20ھ میں دمشق میں انتقال ہوا اور باب الصغیر میں دفن ہوئے۔ بعض حلب میں انتقال بتلاتے ہیں اور باب الاربعین میں مدفون ہونا لکھتے ہیں۔ ان کے مناقب بہت زیادہ ہیں۔ ان کے کوئی اولاد نہیں، تابعین کی ایک کثیر جماعت ان سے روایت کرتی ہے۔

2219.

ضرت عبدالرحمان بن عوف  ؓ نے حضرت صہیب  ؓ  سے فرمایا: تم اللہ سے ڈرو اور خود کو ا پنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب نہ کرو۔ حضرت صہیب نے جواب دیا: اگر مجھے اتنا مال ملے تب بھی اسطرح کادعویٰ کرنا پسند نہ کروں لیکن مجھے بچپن میں چرا لیا گیا تھا۔