تشریح:
(1) یہ روایت انتہائی مجمل ہے۔ واقعہ اس طرح ہے کہ حضرت صہیب ؓ اصلاً عرب تھے۔ان کے والد قبیلۂ نمر سے اور والدہ بنو تمیم سے تھیں۔ یہ دونوں قبیلے عرب ہیں۔حضرت صہیب ؓ کو بچپن ہی میں کسی نے اغوا کرکے رومیو کے ہاتھ فروخت کردیا تھا، ان کی پرورش رومی علاقے میں ہوئی۔ اس بنا پر رومی لب ولہجے میں عربی بولتے تھے۔ اغوا کے وقت انھیں اتنا شعور تھا کہ وہ کن لوگوں میں پیدا ہوئے ہیں اور کن لوگوں میں انھوں نے پرورش پائی ہے۔ قبیلۂ قلب نے انھیں رومیوں سے خریدا،ان سے ابن جدعان نے خرید کر انھیں آزاد کردیاتھا۔ عرب میں واپس آنے کے بعد جب انھوں نے اپنے حسب ونسب کا اظہار کیا تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے ان کے بیان پر شبہ کا اظہار کیا۔ تب حضرت صہیب ؓ نے وضاحت فرمائی جو حدیث میں ہے۔ مستدرک حاکم میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے بھی حضرت صہیب ؓ سے اس قسم کی گفتگو کی تھی تو انھوں نے بتایا تھا کہ میں نمر بن قاسط سے ہوں، البتہ بچپن میں مجھے چرالیا گیا اور رومیوں کے ہاتھوں بیچ دیا گیا اور میری پرورش رومیوں میں ہوئی، اس لیے میں انھی کے لب ولہجے میں عربی بولتا ہوں۔ (المستدرك للحاکم:398/3) (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ کفارو مشرکین کی ملک صحیح ہے، اس کا اعتبار کیا جائے گا کیونکہ ابن جدعان نے انھیں خریدا پھر آزاد کیا۔ اس بنا پر کفار کی خریدوفروخت،عتق وہبہ وغیرہ کا اعتبار ہوگا۔ صرف ان کے کفر کی وجہ سے انکار نہیں کیا جائے گا۔