تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے کفارومشرکین کے حقوق کے متعلق مزید یہ بیان کیا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں اگر کسی نے نیکی کے کام کیے تھے پھر وہ اسلام لے آیا تو اسے ان نیکیوں پر بھی اجر ملے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم ان نیکیوں کو ختم کرکے نہیں بلکہ انھیں باقی رکھ کر اسلام لائے ہو اور اس پر تمھیں اجر ملے گا۔ اس کے برعکس جو باطل چیزیں ہیں اسلام لانے کے بعد ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ اسلام ان سب کو مٹا دے گا۔‘‘(2) عنوان سے اس حدیث کی مطابقت بایں طور ہے کہ مشرک کا صدقہ کرنا، اپنے اقارب سے حسن سلوک کرنا اور غلام آزاد کرنا تب ہی درست ہوسکتا ہے کہ ان میں اس کی ملکیت صحیح ہو۔ مشرک کا حق ملکیت تسلیم شدہ ہے کیونکہ غلام آزاد کرنے کی صحت اس بات پر موقوف ہے کہ اس کی ملکیت کو صحیح تسلیم کیا جائے۔ (فتح الباري:512/4) (3) اس حدیث کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ تم نے گزشتہ دور میں جو بھلائیاں کی ہیں انھی کی بدولت تمھیں قبول اسلام کی توفیق ملی ہے۔