تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ذی روح کی تصویر بنانا حرام ہے، خواہ وہ ہاتھ سے ہو یا کیمرے سے، وہ مجسم ہویا کاغذ پر پرنٹ ہو، کسی حالت میں ذی روح کی تصویر بنانا درست نہیں۔ اس بنا پر تصویر کشی اور فوٹو گرافی کو بطور کاروبار اختیار کرنا بھی شرعاً ناجائز ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کے پاس جو آدمی آیا اس کا ذریعہ معاش ہی تصویر کشی تھا، اس پر اسے وعید سنائی گئی۔ ہاں، حضرت ابن عباس کی نصیحت سے امام بخاری ؒ نے یہ استنباط کیا ہے کہ غیر ذی روح کی تصاویر بنانا اور ان کی خریدوفروخت جائز ہے۔ مذکورہ عنوان میں اس کے جائز ہونے کو بیان کیا گیاہے۔ (2) امام بخاری نے آخر میں جس حدیث کا حوالہ دیا ہے اسے خود ہی آگے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:’’جس نے دنیا میں تصویر کشی کی قیامت کے دن اسے تیار کردہ تصویر میں روح پھونکنے کے متعلق کہا جائے گا لیکن وہ کسی صورت بھی اس میں روح نہیں ڈال سکے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5963) ایک رویت میں ہے:’’جس نے تصویر بنائی اسے قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔‘‘ (صحیح البخاري، التعبیر، حدیث:7042) تصویر کشی کے متعلق ہم اپنا موقف کتاب اللباس میں بیان کریں گے۔ بإذن الله.