تشریح:
(1) اگر لونڈی بار بار بدکاری کی مرتکب ہوتو مفت میں بھی اس سے جان چھڑائی جائے تو اچھا ہے۔ (2) واضح رہے کہ اس حدیث میں جو حد لگانے کا ذکر ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ مالک خود ہی اسے کوڑے مارنا شروع کردے بلکہ حد جاری کرنے کا حق عدالت کو ہے۔ حد جاری ہوجانے کے بعد اسے مزید طعن و ملامت کرنے یا کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مجرم نے اپنے گناہ کا کفارہ ادا کردیا ہے اور وہ قانون کی رو سے کیفر کردار کو پہنچ گیا ہے۔ (3) اس حدیث کا عنوان سے بایں طور تعلق ہے کہ اس میں لونڈی کو فروخت کرنے کا حکم عام ہے اور اس لونڈی کو بھی شامل ہے جو مدبرہ ہو۔ علامہ عینی ؒ نے اس استدلال پر اعتراض کیا ہے کہ حدیث میں جواز بیع کو دوبار یا سہ بار زنا کرنے پر موقوف رکھا گیا ہے جبکہ قائلین کے نزدیک تو مدبر کی بیع ہر حال میں درست ہے، خواہ وہ زنا کرے یا نہ کرے۔ (عمدة القاري:526/8) لیکن علامہ موصوف کا یہ اعتراض درست نہیں کیونکہ مدبرہ لونڈی اگر دوبار یاسہ بار زنا کرائے تو اسے فروخت کرنے کا جواز اس حدیث سے معلوم ہوا اور جو لوگ مدبر کی بیع کو جائز خیال نہیں کرتے وہ زنا کرنے کی صورت میں بھی اس کے جواز کے قائل نہیں ہیں،اس لیے یہ حدیث تو ان کے موقف کے خلاف ہے اور جو مدبر کی بیع کے قائل ہیں ان کے موافق ہے، چنانچہ اس میں مطلق لونڈی کا ذکر ہے اور وہ مدبرہ کو بھی شامل ہے۔ والله أعلم.