قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابٌ: هَلْ يُسَافِرُ بِالْجَارِيَةِ قَبْلَ أَنْ يَسْتَبْرِئَهَا)

تمہید کتاب عربی

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَلَمْ يَرَ الحَسَنُ بَأْسًا أَنْ يُقَبِّلَهَا أَوْ يُبَاشِرَهَا وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «إِذَا [ص:84] وُهِبَتِ الوَلِيدَةُ الَّتِي تُوطَأُ، أَوْ بِيعَتْ، أَوْ عَتَقَتْ فَلْيُسْتَبْرَأْ رَحِمُهَا بِحَيْضَةٍ، وَلاَ تُسْتَبْرَأُ العَذْرَاءُ» وَقَالَ عَطَاءٌ: «لاَ بَأْسَ أَنْ يُصِيبَ مِنْ جَارِيَتِهِ الحَامِلِ مَا دُونَ الفَرْجِ» وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ} [المؤمنون: 6]

2235. حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْحِصْنَ ذُكِرَ لَهُ جَمَالُ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيِّ بْنِ أَخْطَبَ وَقَدْ قُتِلَ زَوْجُهَا وَكَانَتْ عَرُوسًا فَاصْطَفَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ فَخَرَجَ بِهَا حَتَّى بَلَغْنَا سَدَّ الرَّوْحَاءِ حَلَّتْ فَبَنَى بِهَا ثُمَّ صَنَعَ حَيْسًا فِي نِطَعٍ صَغِيرٍ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آذِنْ مَنْ حَوْلَكَ فَكَانَتْ تِلْكَ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَفِيَّةَ ثُمَّ خَرَجْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ قَالَ فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَوِّي لَهَا وَرَاءَهُ بِعَبَاءَةٍ ثُمَّ يَجْلِسُ عِنْدَ بَعِيرِهِ فَيَضَعُ رُكْبَتَهُ فَتَضَعُ صَفِيَّةُ رِجْلَهَا عَلَى رُكْبَتِهِ حَتَّى تَرْكَبَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

  ´اور امام حسن بصری  نے کہا کہ` اس میں کوئی حرج نہیں کہ ایسی باندی کا (اس کا مالک) بوسہ لے لے یا اپنے جسم سے لگائے، اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب ایسی باندی جس سے وطی کی جا چکی ہے، ہبہ کی جائے یا بیچی جائے یا آزاد کی جائے تو ایک حیض تک اس کا استبراء رحم کرنا چاہئے۔ اور کنواری کے لیے استبراء رحم کی ضرورت نہیں ہے۔ عطاء نے کہا کہ اپنی حاملہ باندی سے شرمگاہ کے سوا باقی جسم سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ مومنون میں فرمایا «إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم‏» مگر اپنی بیویوں سے یا باندیوں سے  فائدہ:استبراء کہتے ہیں لونڈی کا رحم پاک کرنے کو، یعنی کوئی نئی لونڈی خریدے، تو جب تک حیض نہ آئے اس سے صحبت نہ کرے۔ اور سفر میں لے جانے کا ذکر اس لیے آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کو جوشروع میں بہ حیثیت لونڈی کے آئی تھیں، سفر میں اپنے ساتھ رکھا۔ آگے روایت میں سد الروحاءکا ذکر آیا ہے جو مدینہ کے قریب ایک مقام تھا۔ حیس کا ذکر آیاہے، جو ولیمہ میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ گھی، کھجور، اور پنیر سے ملا کر بنایا جاتا ہے۔ باب کے آخر میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورۃ مومنون کی ایک آیت کا حصہ نقل کیا اور اس کے اطلاق سے یہ نکالا کہ بیویوں اور لونڈیوں سے مطلقاً حظ نفس درست ہے۔ صرف جماع استبراءسے پہلے ایک حدیث کی رو سے منع ہوا تو دوسرے عیش بدستور درست رہیں گے۔

2235.

حضرت انس  ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ خیبر تشریف لائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے خیبر کے قلعوں پر آپ کو فتح عطا فرمائی توآپ سے حضرت صفیہ  ؓ بنت حیی بن اخطب کا حسن وجمال ذکر کیاگیا۔ ان کاشوہر قتل ہوچکا تھا اور وہ خود دلہن بنی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں ا پنے لیے منتخب فرمالیا۔ آپ انھیں خیبرسے ساتھ لے کر چلے۔ جب سدروحاء پر پہنچے تو حضرت صفیہ حیض سے پاک ہوگئیں۔ آپ نے ان سے خلوت اختیار کی۔ پھر ایک چھوٹے سے دستر خوان پر حلوہ تیار کرکے رکھ دیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے ارد گرد لوگوں میں اعلان کرو (کہ وہ آکر اسے کھائیں)۔‘‘ بس یہی حضرت صفیہ  ؓ کے متعلق آپ کی طرف سے دعوت ولیمہ تھی۔ پھر ہم مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت انس  ؓ  کابیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ اپنے پیچھے اپنی عباء سے حضرت صفیہ ؓ کے لیے جگہ ہموار کررہے تھے۔ پھر آپ نے اونٹ کے پاس بیٹھ کر اپنا گھٹنا رکھ دیا تو حضرت صفیہ  ؓ نے اپنا پاؤں آپ کے گھٹنے پر رکھا اور اونٹ پر سوار ہوگئیں۔