تشریح:
(1) ان دو احادیث میں پانچ احکام بیان ہوئے ہیں جن کے متعلق شریعت نے حکم امتناعی جاری کیا ہے: ٭ کتے کی قیمت۔ ٭ فاحشہ عورت کی کمائی ۔٭ کاہن کی شیرینی۔ ٭ خون کی خریدو فروخت۔ ٭ لونڈی سے پیشہ کرانا۔ اس کے علاوہ تین کاموں کی نشاندہی کی گئی ہے جو باعث لعنت وپھٹکار ہیں۔ (ا) خوبصورتی کے لیے جسم کے کسی حصے میں سرمہ بھرنے بھرانے کا پیشہ کرنا۔ (ب) سودی کاروبار کرنا،یعنی اسے لینا دینا۔ (ج) فوٹو گرافی اور تصویر کشی کو اختیار کرنا۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد صرف کتے کی قیمت کے متعلق ہمیں آگاہ کرنا ہے کہ یہ حرام اور ناجائز ہے۔ جمہور محدثین کے نزدیک ہر قسم کے کتے کی قیمت حرام ہے، خواہ سدھایا ہوا ہو یا اس کے علاوہ ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی اسے مار ڈالے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ (فتح الباري:538/4) لیکن اس دور میں کتوں سے بہت کام لیے جاتے ہیں، مثلاً: جاسوسی،سراغ رسانی اور شکار کرنے کے لیے ان کا استعمال بہت مشہور ہے۔کسٹم اور دیگر شعبہ جات میں کتوں کی بہت اہمیت ہے۔ گھر کی حفاظت کے لیے کتے رکھنا بھی ہمارے ہاں معمول ہے اور اصول فقہ کا قاعدہ ہے کہ جس چیز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے اس کی خریدوفروخت بھی جائز ہے۔ احادیث کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں شکاری کتے کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شکاری کتے کے علاوہ کسی بھی کتے کی قیمت لینے سے منع کیا ہے۔ (سنن النسائي، البیوع، حدیث:4672) اس رویت کو اگرچہ امام نسائی ؒ نے منکر کہا ہے تاہم محدث العصر علامہ البانی ؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (صحیح سنن النسائي، البیوع، حدیث:4353)(3) واضح رہے کہ کتوں میں سونگھنے کی بہت قوت ہوتی ہے۔ یہ سونگھ کر مجرم کا کھوج لگاتے ہیں۔ ان کی باقاعدہ ٹریننگ ہوتی ہے۔ان پر بہت خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے، پھر ان تربیت یافتہ کتوں کی بہت بھاری قیمتیں ہوتی ہیں۔ بہر حال شوقیہ کتے رکھنا یا دوڑ میں مقابلے کےلیے انھیں پالنے کی شرعاً اجازت نہیں، البتہ کسی ضرورت کے پیش نظر انھیں رکھنا جائز ہے۔