باب : غیر جاندار چیزوں کی تصویر بیچنا اور اس میں کون سی تصویر حرام ہے
)
Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: The selling of the pictures)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2244.
حضرت سعید بن ابو الحسن سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس تھا کہ ان کے ہاں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے ابو عباس!میں ایک ایساانسان ہوں جسکا پیشہ صرف دستکاری ہے۔ میں یہ تصویریں بناتا ہوں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: میں تجھے وہی بات کہوں گا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جس نے کوئی تصویر بنائی تو اللہ اسے عذاب دیتا رہے گا تاآنکہ وہ اس میں روح پھونکے اور وہ کبھی اس میں روح نہیں ڈال سکے گا۔‘‘ یہ سن کر اس شخص کی سانس رک گئی اور چہرہ فق ہوگیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اسے کہا: تیرا بھلاہو!اگر تجھے تصویریں بنانے پر اصرار ہے تو درختوں یا ان چیزوں کی تصویریں بنا لیا کر جن میں روح نہیں ہے۔ ابو عبداللہ(امام بخاری) نے کہا کہ سعید بن ابی عروبہ نے حضرت نضر بن انس ؓ سے یہی ایک حدیث سنی ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ذی روح کی تصویر بنانا حرام ہے، خواہ وہ ہاتھ سے ہو یا کیمرے سے، وہ مجسم ہویا کاغذ پر پرنٹ ہو، کسی حالت میں ذی روح کی تصویر بنانا درست نہیں۔ اس بنا پر تصویر کشی اور فوٹو گرافی کو بطور کاروبار اختیار کرنا بھی شرعاً ناجائز ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کے پاس جو آدمی آیا اس کا ذریعہ معاش ہی تصویر کشی تھا، اس پر اسے وعید سنائی گئی۔ ہاں، حضرت ابن عباس کی نصیحت سے امام بخاری ؒ نے یہ استنباط کیا ہے کہ غیر ذی روح کی تصاویر بنانا اور ان کی خریدوفروخت جائز ہے۔ مذکورہ عنوان میں اس کے جائز ہونے کو بیان کیا گیاہے۔ (2) امام بخاری نے آخر میں جس حدیث کا حوالہ دیا ہے اسے خود ہی آگے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:’’جس نے دنیا میں تصویر کشی کی قیامت کے دن اسے تیار کردہ تصویر میں روح پھونکنے کے متعلق کہا جائے گا لیکن وہ کسی صورت بھی اس میں روح نہیں ڈال سکے گا۔‘‘(صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5963) ایک رویت میں ہے:’’جس نے تصویر بنائی اسے قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔‘‘(صحیح البخاري، التعبیر، حدیث:7042) تصویر کشی کے متعلق ہم اپنا موقف کتاب اللباس میں بیان کریں گے۔ بإذن الله.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2159
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2225
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2225
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2225
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
حضرت سعید بن ابو الحسن سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس تھا کہ ان کے ہاں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے ابو عباس!میں ایک ایساانسان ہوں جسکا پیشہ صرف دستکاری ہے۔ میں یہ تصویریں بناتا ہوں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: میں تجھے وہی بات کہوں گا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جس نے کوئی تصویر بنائی تو اللہ اسے عذاب دیتا رہے گا تاآنکہ وہ اس میں روح پھونکے اور وہ کبھی اس میں روح نہیں ڈال سکے گا۔‘‘ یہ سن کر اس شخص کی سانس رک گئی اور چہرہ فق ہوگیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اسے کہا: تیرا بھلاہو!اگر تجھے تصویریں بنانے پر اصرار ہے تو درختوں یا ان چیزوں کی تصویریں بنا لیا کر جن میں روح نہیں ہے۔ ابو عبداللہ(امام بخاری) نے کہا کہ سعید بن ابی عروبہ نے حضرت نضر بن انس ؓ سے یہی ایک حدیث سنی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ذی روح کی تصویر بنانا حرام ہے، خواہ وہ ہاتھ سے ہو یا کیمرے سے، وہ مجسم ہویا کاغذ پر پرنٹ ہو، کسی حالت میں ذی روح کی تصویر بنانا درست نہیں۔ اس بنا پر تصویر کشی اور فوٹو گرافی کو بطور کاروبار اختیار کرنا بھی شرعاً ناجائز ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کے پاس جو آدمی آیا اس کا ذریعہ معاش ہی تصویر کشی تھا، اس پر اسے وعید سنائی گئی۔ ہاں، حضرت ابن عباس کی نصیحت سے امام بخاری ؒ نے یہ استنباط کیا ہے کہ غیر ذی روح کی تصاویر بنانا اور ان کی خریدوفروخت جائز ہے۔ مذکورہ عنوان میں اس کے جائز ہونے کو بیان کیا گیاہے۔ (2) امام بخاری نے آخر میں جس حدیث کا حوالہ دیا ہے اسے خود ہی آگے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:’’جس نے دنیا میں تصویر کشی کی قیامت کے دن اسے تیار کردہ تصویر میں روح پھونکنے کے متعلق کہا جائے گا لیکن وہ کسی صورت بھی اس میں روح نہیں ڈال سکے گا۔‘‘(صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5963) ایک رویت میں ہے:’’جس نے تصویر بنائی اسے قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔‘‘(صحیح البخاري، التعبیر، حدیث:7042) تصویر کشی کے متعلق ہم اپنا موقف کتاب اللباس میں بیان کریں گے۔ بإذن الله.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انہو ں نے کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، انہیں عوف بن ابی حمید نے خبر دی، انہیں سعید بن ابی حسن نے، کہا کہ میں ابن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا، اور کہا کہ اے ابوعباس ! میں ان لوگوں میں سے ہوں، جن کی روزی اپنے ہاتھ کی صنعت پر موقوف ہے اور میں یہ مورتیں بناتا ہوں۔ ابن عباس ؓ نے اس پر فرمایا کہ میں تمہیں صرف وہی بات بتلاؤں گا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ انہو ں نے کہا کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ جس نے بھی کوئی مورت بنائی تو اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک عذاب کرتا رہے گا جب تک وہ شخص اپنی مورت میں جان نہ ڈال دے اور وہ کبھی اس میں جان نہیں ڈال سکتا (یہ سن کر) اس شخص کا سانس چڑھ گیا اور چہرہ زرد پڑ گیا۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ افسوس ! اگر تم مورتیں بنانی ہی چاہتے ہو تو ان درختوں کی اور ہر اس چیز کی جس میں جان نہیں ہے مورتیں بناسکتے ہو۔ ابوعبداللہ امام بخاری نے کہا کہ سعید بن ابی عروبہ نے نضر بن انس سے صرف یہی ایک حدیث سنی ہے۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس کو کتاب اللباس میں عبدالاعلیٰ سے، انہوں نے سعید بن ابی عروبہ سے، انہوں نے نضر سے، انہوں نے ابن عباس ؓ سے نکالا۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے مورتوں کی کراہت اور حرمت نکالی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said bin Abu Al-Hasan (RA): While I was with Ibn 'Abbas (RA) a man came and said, "O father of 'Abbas! My sustenance is from my manual profession and I make these pictures." Ibn 'Abbas (RA) said, "I will tell you only what I heard from Allah's Apostle (ﷺ) . I heard him saying, 'Whoever makes a picture will be punished by Allah till he puts life in it, and he will never be able to put life in it.' " Hearing this, that man heaved a sigh and his face turned pale. Ibn 'Abbas (RA) said to him, "What a pity! If you insist on making pictures I advise you to make pictures of trees and any other unanimated objects." ________