تشریح:
1۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب قضائے حاجت کے لیے باہر جاتے تو بہت دور تشریف لے جاتے اورآپ کوکوئی دیکھ نہ سکتاتھا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 2۔1) براز(پاخانے) کے لیے چونکہ دوطرفہ پردے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے آپ دور تشریف لے جایا کرتے تھے۔ پیشاب میں ایک طرف آڑ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا براز کی طرح دور جانے کے اہتمام کی ضرورت نہیں۔ وہ لوگوں کی موجودگی میں بلکہ کسی کو پردے کی غرض سے پاس کھڑا کر کے بھی یہ حاجت پوری کی جاسکتی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی مقصد کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اورحدیث حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دوبارہ پیش کیا ہے۔ عرب کے ہاں بول وبراز کے وقت بے حجابی عام تھی، اس کا تعلق اسلامی تہذیب سے نہ تھا، رسول اللہ ﷺ نے اسلامی تہذیب کو بایں الفاظ واضح کردیا ہے: ’’ دو شخص اس طرح قضائے حاجت کے لیے نہ نکلیں کہ اس وقت ایک دوسرے کے سامنے اپنا ستر کھولیں اور آپس میں باتیں کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے سے نارض ہوتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 15)
2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے قریب بلانا اشارے سے تھا، زبان سے بول کر نہیں بلایا تھا۔ اور روایت بخاری کے پیش نظر صحیح مسلم کے الفاظ کو اشارہ غیر لفظیہ پر محمول کریں گے، لہٰذا اس حدیث سے حالت بول میں جواز کلام پر استدلال درست نہیں ہے۔ (فتح الباري: 429/1) رسول اللہ ﷺ ایسے وقت میں سلام کا جواب بھی نہیں دیتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ آپ پیشاب کررہے تھے کہ ایک آدمی نے آپ کو سلام کہا تو آپ نے اس کا جواب نہ دیا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 16)