Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The pouring of water over the urine in the mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
225.
ہمیں عبدان نے بیان کیا ہے، ان کو عبداللہ نے، ان کو یحییٰ بن سعید نے بتلایا۔ انھوں نے کہا: میں نے حضرت انس بن مالک ؓ کو نبی ﷺ سے بیان کرتے ہوئے سنا۔
تشریح:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تراجم ابواب بخاری میں لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض طہارت زمین کاطریقہ بتانا ہے کہ وہ مطلقاً پانی بہا دینے سے حاصل ہوگی۔ اس میں نقل تراب(مٹی اٹھانے) یاحفر مسجد(مسجد کے کھودنے) کی ضرورت نہیں، جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے یا آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر زمین نرم ہو توپانی بہادینا اس کی طہارت کے لیے کافی ہے جیسا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ مسلک ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامسلک پوری طرح متعین نہیں ہوسکا کہ وہ حنفیہ کے موافق ہے یا شافعیہ کے ۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک کتاب وسنت کا اتباع ہے، انھیں نہ تو کسی کی موافقت کی ضرورت ہے اور نہ کسی کی مخالفت ہی سے انھیں کوئی غرض ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامسلک وہ ٹھوس اورخاموش تراجم ہیں جو انھوں نے اپنی صحیح میں قائم کیے ہیں، پھر ان کے ثبوت کے لیے ناقابل تردید صحیح احادیث ہیں۔ 2۔ جس اعرابی نے مسجد کے کونے میں پیشاب کیاتھا اس کا نام کیاتھا؟ وہ یمانی تھا یا تمیمی؟ اس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذوالخویصرہ تمیمی تھا جس کا نام حرقوص بن زہیر ہے اور جوبعد میں خوارج کا سرغنہ ثابت ہوا۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اقرع بن حابس یا عیینہ بن حصن تھا۔‘‘ والعلم عنداللہ(فتح الباری:422/1) ترمذی کی روایت میں ہےکہ جب وہ اعرابی آیا تو اس نے مسجد میں نماز ادا کی، پھر دعا کرنے لگا:’’ اے اللہ! تو صرف مجھ پر اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر رحم کر اوررحم کرنے میں ہمارے علاوہ کسی اور کو شامل نہ کر۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’ تو نے اللہ کی رحمت کو تنگ کردیا ہے۔‘‘ پھر وہ اٹھا اور مسجد کے کونے میں پیشاب کرنے لگا۔ (جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: 147)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
222
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
221
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
221
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
221
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
ہمیں عبدان نے بیان کیا ہے، ان کو عبداللہ نے، ان کو یحییٰ بن سعید نے بتلایا۔ انھوں نے کہا: میں نے حضرت انس بن مالک ؓ کو نبی ﷺ سے بیان کرتے ہوئے سنا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تراجم ابواب بخاری میں لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض طہارت زمین کاطریقہ بتانا ہے کہ وہ مطلقاً پانی بہا دینے سے حاصل ہوگی۔ اس میں نقل تراب(مٹی اٹھانے) یاحفر مسجد(مسجد کے کھودنے) کی ضرورت نہیں، جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے یا آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر زمین نرم ہو توپانی بہادینا اس کی طہارت کے لیے کافی ہے جیسا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ مسلک ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامسلک پوری طرح متعین نہیں ہوسکا کہ وہ حنفیہ کے موافق ہے یا شافعیہ کے ۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک کتاب وسنت کا اتباع ہے، انھیں نہ تو کسی کی موافقت کی ضرورت ہے اور نہ کسی کی مخالفت ہی سے انھیں کوئی غرض ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامسلک وہ ٹھوس اورخاموش تراجم ہیں جو انھوں نے اپنی صحیح میں قائم کیے ہیں، پھر ان کے ثبوت کے لیے ناقابل تردید صحیح احادیث ہیں۔ 2۔ جس اعرابی نے مسجد کے کونے میں پیشاب کیاتھا اس کا نام کیاتھا؟ وہ یمانی تھا یا تمیمی؟ اس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذوالخویصرہ تمیمی تھا جس کا نام حرقوص بن زہیر ہے اور جوبعد میں خوارج کا سرغنہ ثابت ہوا۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اقرع بن حابس یا عیینہ بن حصن تھا۔‘‘ والعلم عنداللہ(فتح الباری:422/1) ترمذی کی روایت میں ہےکہ جب وہ اعرابی آیا تو اس نے مسجد میں نماز ادا کی، پھر دعا کرنے لگا:’’ اے اللہ! تو صرف مجھ پر اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر رحم کر اوررحم کرنے میں ہمارے علاوہ کسی اور کو شامل نہ کر۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’ تو نے اللہ کی رحمت کو تنگ کردیا ہے۔‘‘ پھر وہ اٹھا اور مسجد کے کونے میں پیشاب کرنے لگا۔ (جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: 147)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہمیں عبداللہ نے خبر دی، کہا ہمیں یحییٰ بن سعید نے خبر دی، کہا میں نے انس بن مالک ؓ سے سنا، وہ رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔