قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ السَّلَمِ (بَابُ السَّلَمِ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَبِهِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَأَبُو سَعِيدٍ، وَالأَسْوَدُ، وَالحَسَنُ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: «لاَ بَأْسَ [ص:87] فِي الطَّعَامِ المَوْصُوفِ، بِسِعْرٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ، مَا لَمْ يَكُ ذَلِكَ فِي زَرْعٍ لَمْ يَبْدُ صَلاَحُهُ»

2253. حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يُسْلِفُونَ فِي الثِّمَارِ السَّنَتَيْنِ وَالثَّلَاثَ فَقَالَ أَسْلِفُوا فِي الثِّمَارِ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ وَقَالَ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

ابن عباس ؓاور ابوسعید خدری ؓ اور اسود اور امام حسن بصری نے یہی کہا ہے۔ اور ابن عمر ؓ نے کہا اگر غلہ کا نرخ اور اس کی صفت بیان کر دی جائے تو میعاد معین کرکے اس میں بیع سلم کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اگر یہ غلہ کسی خاص کھیت کا نہ ہو، جوابھی پکا نہ ہو۔ تشریح : یعنی اگر کسی خاص کھیت کے غلہ میں یا کسی خاص درخت کے میوہ میں سلم کرے اور ابھی وہ غلہ یا میوہ تیار نہ ہوا ہو تو سلم درست نہ ہوگی، لیکن تیار ہونے کے بعد خاص کھیت اور خاص پیداوار میں بھی سلم کرنا درست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک غلہ یا میوہ پختگی پر نہ آیا ہو اس کا کوئی بھروسہ نہیں ہوسکتا کہ غلہ یا میوہ اترے گا یا نہیں۔ احتمال ہے کہ کسی آفت ارضی یا سماوی سے یہ غلہ اور میوہ تباہ ہو جائے پھر دونوں میں جھگڑا ہو۔ ( وحیدی ) حضرت امام بخاری نے یہ باب لا کر شافعیہ کا رد کیا ہے جو سلم کو بن میعاد یعنی نقد بھی جائز رکھتے ہیں۔ حنفیہ اور مالکیہ امام بخاری کے موافق ہیں۔ اب اس میں اختلاف ہے کہ کم سے کم مدت کیا ہونی چاہئے۔ پندرہ دن سے لے کر آدھے دن تک کی مدت کے مختلف اقوال ہیں۔ طحاوی نے تین دن کو کم سے کم مدت قرار دیا ہے۔ امام محمد  نے ایک مہینہ مدت ٹھہرائی ہے۔ حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جن کا یہاں ذکر ہے ابوالحسن کے بیٹے ہیں۔ ان کی کنیت ابوسعید ہے، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ ان کے والد ابوالحسن کا نام یسار ہے۔ یہ قبیلہ بن سبئی یلسان سے ہیں۔ یسار کو ربیع بنت نضر نے آزاد کیا تھا۔ امام حسن بصری جب کہ خلافت عمری کے دو سال باقی تھے۔ عالم وجود میں آئے۔ مدینہ منورہ مقام ولادت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے کھجور منہ میں چبا کر ان کے تالو سے لگائی۔ ان کی والدہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی خدمت کرتی تھیں۔ بسااوقات ان کی والدہ کہیں چلی جاتیں تو حسن بصری کو بہلانے کے لیے حضرت ام سلمہ ؓ اپنی چھاتی ان کے منہ میں دے دیا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ ان کی والدہ لوٹ کر آتیں تو ام المومنین کے دودھ بھر آتا اور یہ حضرت اسے پی لیا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے یہ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کے رضای فرزند ثابت ہوئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جس علم و حکمت پر امام حسن بصریپہنچے یہ اسی کا طفیل ہے۔ حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کے بعد یہ بصرہ چلے آئے۔ انہوں نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھا۔ اور کہا گیا ہے کہ مدینہ میں یہ حضرت علی ؓ سے بھی ملے۔ لیکن بصرہ میں ان کا حضرت علیؓ سے ملنا صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ حضرت حسن بصری جس وقت بصرہ کو جارہے تھے تو وہ وادی قریٰ ہی میں تھے۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس وقت بصرہ میں تشریف لا چکے تھے۔ انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت انس بن مالک اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور دوسرے اکابر صحابہ سے روایت کی ہے۔ اور ان سے بھی ایک بڑی جماعت تابعین اور تبع تابعین نے روایات کی ہیں۔ وہ اپنے زمانہ میں علم و فن، زہد و تقوی و عبادت اور ورع کے امام تھے۔ رجب110ھ میں وفات پائی۔ حشرنا اللہ معہم و جمع اللہ بیننا و بینہم فی اعلیٰ علیین آمین

2253.

حضرت ابن عباس  ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو لوگ پھلوں کے متعلق دو، دوسال اور تین تین سال ادھار پر سودا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم نے پھلوں میں ادھار کرنا ہے تو ماپ بھی معلوم ہو مدت بھی معین ہو۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’پھلوں کاماپ یاوزن معلوم ہو۔‘‘