Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: The sale id a slave who is promised to be manumitted)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2253.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئےسنا: ’’جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کر اور وہ ثابت ہوجائے تو اس بطور حد کوڑے مارے، البتہ اسے ط طعن وملامت نہ کرے۔ اگر پھر زنا کار کا ارتکاب کرے تو اس مرتبہ بھی بطور حد کوڑے لگائے لیکن کسی قسم کی لعنت وملامت نہ کرے۔ پھر اگر تیسری مرتبہ زنا کرے اور اس کا زنا واضح ہوجائے تواسے فروخت کردے، خواہ بالوں کی ایک رسی کے عوض ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
تشریح:
(1) اگر لونڈی بار بار بدکاری کی مرتکب ہوتو مفت میں بھی اس سے جان چھڑائی جائے تو اچھا ہے۔ (2) واضح رہے کہ اس حدیث میں جو حد لگانے کا ذکر ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ مالک خود ہی اسے کوڑے مارنا شروع کردے بلکہ حد جاری کرنے کا حق عدالت کو ہے۔ حد جاری ہوجانے کے بعد اسے مزید طعن و ملامت کرنے یا کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مجرم نے اپنے گناہ کا کفارہ ادا کردیا ہے اور وہ قانون کی رو سے کیفر کردار کو پہنچ گیا ہے۔ (3) اس حدیث کا عنوان سے بایں طور تعلق ہے کہ اس میں لونڈی کو فروخت کرنے کا حکم عام ہے اور اس لونڈی کو بھی شامل ہے جو مدبرہ ہو۔ علامہ عینی ؒ نے اس استدلال پر اعتراض کیا ہے کہ حدیث میں جواز بیع کو دوبار یا سہ بار زنا کرنے پر موقوف رکھا گیا ہے جبکہ قائلین کے نزدیک تو مدبر کی بیع ہر حال میں درست ہے، خواہ وہ زنا کرے یا نہ کرے۔ (عمدة القاري:526/8) لیکن علامہ موصوف کا یہ اعتراض درست نہیں کیونکہ مدبرہ لونڈی اگر دوبار یاسہ بار زنا کرائے تو اسے فروخت کرنے کا جواز اس حدیث سے معلوم ہوا اور جو لوگ مدبر کی بیع کو جائز خیال نہیں کرتے وہ زنا کرنے کی صورت میں بھی اس کے جواز کے قائل نہیں ہیں،اس لیے یہ حدیث تو ان کے موقف کے خلاف ہے اور جو مدبر کی بیع کے قائل ہیں ان کے موافق ہے، چنانچہ اس میں مطلق لونڈی کا ذکر ہے اور وہ مدبرہ کو بھی شامل ہے۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2167
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2234
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2234
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2234
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
مدبر اس غلام کو کہتے ہیں جس کا مالک وصیت کردے کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہوگے۔اس کے متعلق سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اسے فروخت کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟بوقت ضرورت اس قسم کے غلام کو فروخت کرنا جائز ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت ہوگی۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئےسنا: ’’جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کر اور وہ ثابت ہوجائے تو اس بطور حد کوڑے مارے، البتہ اسے ط طعن وملامت نہ کرے۔ اگر پھر زنا کار کا ارتکاب کرے تو اس مرتبہ بھی بطور حد کوڑے لگائے لیکن کسی قسم کی لعنت وملامت نہ کرے۔ پھر اگر تیسری مرتبہ زنا کرے اور اس کا زنا واضح ہوجائے تواسے فروخت کردے، خواہ بالوں کی ایک رسی کے عوض ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اگر لونڈی بار بار بدکاری کی مرتکب ہوتو مفت میں بھی اس سے جان چھڑائی جائے تو اچھا ہے۔ (2) واضح رہے کہ اس حدیث میں جو حد لگانے کا ذکر ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ مالک خود ہی اسے کوڑے مارنا شروع کردے بلکہ حد جاری کرنے کا حق عدالت کو ہے۔ حد جاری ہوجانے کے بعد اسے مزید طعن و ملامت کرنے یا کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مجرم نے اپنے گناہ کا کفارہ ادا کردیا ہے اور وہ قانون کی رو سے کیفر کردار کو پہنچ گیا ہے۔ (3) اس حدیث کا عنوان سے بایں طور تعلق ہے کہ اس میں لونڈی کو فروخت کرنے کا حکم عام ہے اور اس لونڈی کو بھی شامل ہے جو مدبرہ ہو۔ علامہ عینی ؒ نے اس استدلال پر اعتراض کیا ہے کہ حدیث میں جواز بیع کو دوبار یا سہ بار زنا کرنے پر موقوف رکھا گیا ہے جبکہ قائلین کے نزدیک تو مدبر کی بیع ہر حال میں درست ہے، خواہ وہ زنا کرے یا نہ کرے۔ (عمدة القاري:526/8) لیکن علامہ موصوف کا یہ اعتراض درست نہیں کیونکہ مدبرہ لونڈی اگر دوبار یاسہ بار زنا کرائے تو اسے فروخت کرنے کا جواز اس حدیث سے معلوم ہوا اور جو لوگ مدبر کی بیع کو جائز خیال نہیں کرتے وہ زنا کرنے کی صورت میں بھی اس کے جواز کے قائل نہیں ہیں،اس لیے یہ حدیث تو ان کے موقف کے خلاف ہے اور جو مدبر کی بیع کے قائل ہیں ان کے موافق ہے، چنانچہ اس میں مطلق لونڈی کا ذکر ہے اور وہ مدبرہ کو بھی شامل ہے۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کا، کہا کہ مجھے لیث نے خبر دی، انہیں سعید نے، انہیں ان کے والد نے، او ران سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے میں نے خود سنا ہے کہ جب کوئی باندی زنا کرائے اور وہ ثابت ہوجائے تو اس پر حد زنا جاری کی جائے، البتہ اسے لعنت ملامت نہ کی جائے۔ پھر اگر وہ زنا کرائے تو اس پر اس مرتبہ بھی حد جاری کی جائے، لیکن کسی قسم کی لعنت ملامت نہ کی جائے۔ تیسری مرتبہ بھی اگر زنا کرے اور زنا ثابت ہو جائے تو اسے بیچ ڈالے خواہ بال کی ایک رسی کے بدلے ہی کیو ں نہ ہو۔
حدیث حاشیہ:
اس لیے کہ ایسی فاحشہ عورت ایک مسلمان کے گھر میں نہیں رہ سکتی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ﴾(النور:26)یعنی خبیث زانی عورتیں بدکار زانی مردوں کے لیے اور خبیث زانی مرد خبیث زانی عورتوں کے لیے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): I heard the Prophet (ﷺ) saying, "If a slave-girl of yours commits illegal sexual intercourse and her illegal sexual intercourse is proved, she should be lashed, and after that nobody should blame her, and if she commits illegal sexual intercourse the second time, she should be lashed and nobody should blame her after that, and if she does the offense for the third time and her illegal sexual intercourse is proved, she should be sold even for a hair rope." ________