تشریح:
کسی کے مال کا خزانچی، صاحب مال کا اجیر (مزدور) ہوتا ہے۔اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اجارے کے باب میں ذکر کیا ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق "امین خازن" عام معنوں میں استعمال ہوا ہے، یعنی جو بھی کسی ادائیگی پر مامور ہے اور ادائیگی ٹھیک ٹھیک کرتا ہے، لوگوں کا جو حق بنتا ہے وہ پورا پورا ادا کرتا ہے۔ اگرچہ وہ سرکار کے خزانے سے دے رہا ہوتا ہے لیکن پھر بھی خرچ کرنے کے ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ ایسے آدمی کا امانت دار ہونا انتہائی ضروری ہے، بصورت دیگر بہت سے نقصانات کا اندیشہ ہے۔ "حضرت" امین احسن اصلاحی کی بھی سنتے جائیے، فرماتے ہیں: ’’باب الاجارہ سے اس روایت کا تعلق نہایت بعید ہے۔‘‘ (تدبرحدیث:548/1) کاش! اصلاحی صاحب کسی ماہر فن،راسخ العلم محدث کے سامنے زانوئے تلمذتہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاص کے ساتھ ان سے حدیث پڑھتے تو ایسی ناپختہ باتیں لکھنے کی جرأت نہ کرتے۔