تشریح:
(1) اس روایت میں کچھ اختصار ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے،حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے ساتھ دو اشعری آدمی تھے، ایک میری دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت مسواک کررہے تھے۔ ان دونوں نے رسول اللہ ﷺ سے عہدہ طلب کیا تو حضرت موسیٰ ؓ نے وضاحت کی: اللہ کے رسول! مجھے ان کی ذہنیت کا قطعاً کوئی علم نہ تھا۔ (صحیح البخاري، استتابةالمرتدین، حدیث:6923) ایک روایت میں ہے کہ ان میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں کسی عہدے پر مامور کیجیے، دوسرے نے بھی اسی طرح کہا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو کسی عہدے کا طلب گار ہو اور اس کی حرص رکھتا ہو،ہم اسے عہدے پر مامور نہیں کرتے۔‘‘ (صحیح البخاري،الأحکام، حدیث:7149) (2) روایات میں اس قسم کا اختصار اور اس کی تفصیل چنداں نقصان دہ نہیں ہوتی لیکن اصلاحی صاحب راویوں کے اس انداز سے بہت برہم ہیں۔ راویانِ حدیث کے خلاف ان کے خبث باطن کا اظہار اس طرح ہوا ہے، لکھتے ہیں: اس روایت میں راوی نے عبارت میں سے بہت کچھ اڑادیاہے......راوی حضرات بیان میں اس قسم کے ہاتھی نگل جاتے ہیں، اس کے بعد اپنی طرف سے اس روایت کا مفہوم متعین کیا ہے جو دوسری روایات میں صراحت کے ساتھ آیا ہے۔ (تدبرحدیث:548/1، 549)(3) بالعموم کسی کام کی درخواست اجرت لینے کےلیے ہوتی ہے۔اس سے اجارہ ثابت ہوتا ہے۔دیگر ذرائع معاش کو چھوڑ کر نوکری کی درخواست دینا انسان کی طمع اور لالچ کی علامت ہے،لہٰذا شریعت کا یہ کلیہ ہے کہ جو کسی عہدے کا طلب گار ہو اسے خارج از بحث کردیا جائے، ہاں اگر کسی کو خود پر اعتماد ہوکہ وہ قوم کی مصلحتوں کو دوسروں کی نسبت بہتر سمجھتا ہے اور وہ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار بھی ہے تو اس کے لیے عہدہ طلب کرنا جائز ہے جیسا کہ حضرت یوسف ؑ نے عزیز مصر سے وزارت خزانہ کا قلمدان خود طلب کیا تھا۔ جہاں خیانت کا گمان ہویا شبہ ہوکہ طالب عہدہ کام کو نہیں نبھا سکے گا یا اچھی طرح سر انجام نہیں دے گا تو وہاں طالب عہدہ کو عامل (سرکاری اہل کار) نہ بنایا جائے۔ یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کسی طالب کو مزدور ہی نہ بنایا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے تو اجارات کا دروازہ ہی بند ہوجائے گا۔ بسا اوقات مزدوروں کاپتہ ہی نہیں چلتا جب تک وہ مزدوری طلب نہ کریں۔ (4) واضح رہے کہ اسلام کا مذکورہ زریں اصول شاید عہد نبوت اور خلافت راشدہ ہی میں استعمال کیا گیا ہو۔ اب اہلیت کے بجائے خویش پروری کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، دوسری طرف نوکری کا حصول اور اس کےلیے دفاتر کی خاک چھاننا اور بھاری رشوتیں پیش کرنا ایک عام فیشن بن گیا ہے۔