تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مزدور کے ساتھ مزدوری کا معاملہ طے کرنا اگرچہ کام کا وقت شروع ہونے سے پہلے ہے مگر اجرت اس وقت سے شروع ہوگی جب سے وہ طے شدہ کام کا آغاز کرے گا، اس سے امام بخاری نے اس وہم کو دور کیا ہے کہ عمل شروع کرنے سے مزدور کو پابند کیا گیا ہے، حالانکہ اس پابندی کی کوئی اجرت نہیں، شاید بغیر اجرت یہ معاملہ کرنا ممنوع ہو۔ امام موصوف نے اس روایت سے ثابت کیا ہے کہ مزدوری کا معاملہ پہلے طے کرنا جائز ہے اور اسے بلا معاوضہ کام کا پابند کرنا محض ایک وعدہ ہے عمل نہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ طے شدہ معاوضہ کام اور کام کےلیے پابند کرنا دونوں کے عوض ہو۔ یہ بھی واضح ہے کہ اسے تو صرف راستہ بتانے کےلیے رکھا گیا تھا جس کا کام معاملہ طے ہونے کے تین دن بعد شروع ہوا۔ (2) امام بخاری ؒ نے عنوان میں مہینہ اور سال کی مدت کو اس پر قیاس کرکے ثابت کیا، یعنی زیادہ مدت کو تھوڑی مدت پر قیاس کیا کیونکہ کوئی مدت افضل نہیں ہے، نیز اونٹنیوں کے چرانے پر عامر بن فہیرہ مقرر تھا۔ (فتح الباري:560/4)