تشریح:
اصلاحی صاحب لکھتے ہیں: یہ حدیث تو لاکھوں کی ہے، الفاظ بہت پاکیزہ ہیں، بیان بھی پاکیزہ ہے، دل پسند معلوم ہوتی ہے لیکن بے محل ہے، شارحین بھی کہتے ہیں کہ اس روایت کا محل سمجھ میں نہیں آتا۔ اس سے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ امام بخاری ؒ کو روایات جمع کرنے کا موقع تو ملا لیکن ترتیب وتہذیب کا موقع بالکل نہ ملا اور لوگوں نے غیر مرتب حالت ہی میں صحیح بخاری کو روایت کرنا شروع کردیا۔ (تدبرحدیث:66/1) اصلاحی صاحب کی یہ بات عقل ونقل کے خلاف ہے۔ امام بخاری ؒ کتاب مرتب کرنے کے بعد مدت دراز تک اپنے تلامذہ کو پڑھاتے رہے ہیں، دراصل امام بخاری ؒ ایک نکتے کی خاطر اسے درمیان میں لائے ہیں۔ وہ اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ جیسے تھوڑا تھوڑا عمل ہوتا جائے ایسے اجرت بھی تھوڑی تھوڑی دینے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ عادت یہ ہے کہ مزدور اپنی اجرت پورا دن یا مہینہ گزرنے کے بعد طلب کرتا ہے لیکن اسے حق پہنچتا ہے کہ دن کے پورا ہونے سے پہلے مطالبہ کرے، مالک کو چاہیے کہ وہ اس کے کام کی مزدوری دے اور اسے نہ روکے۔