تشریح:
(1) استدلال کی بنیاد حدیث مذکور میں تیسرے شخص کا کردار ہے کہ اس نے ایک مزدور کے مال کو از خود کام میں لگایا جس سے خوب نفع حاصل ہوا، پھر اسی کو دے دیا۔ یہ اس صورت میں ہے جب سابقہ امتوں کے احکام ہمارے لیے مشروع ہوں اور رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع نہ کیا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ واقعہ بطور مدح وثنا ذکر فرمایا اور ان کے کردار پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا۔ اگر یہ کام ہماری شریعت میں جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس کی وضاحت فرمادیتے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ واقعہ اگرچہ بطور وعظ ونصیحت بیان فرمایا، تاہم امام بخاری ؒ نے اس سے ایک فقہی مسئلے کا استنباط کیا ہے۔ (2) شارح بخاری ابن بطال لکھتے ہیں کہ اگر کسی نے غصب کردہ یا امانت والے مال کو تجارت میں لگایا تو اس نفع اس کے لیے جائز ہے جبکہ اصل مال اس کے مالک کو واپس کردیاجائے۔ (فتح الباري:517/4) ہمارے رجحان کے مطابق کسی کی امانت میں تصرف کرنے کا کسی کو حق نہیں۔ اگر کوئی تصرف کرکے نفع کماتا ہے تو وہ اصل مالک کا ہے زیادہ سے زیادہ وہ اپنی محنت کا معاوضہ’’معروف طریقے‘‘ کے مطابق لے سکتا ہے۔ اگر اس مال میں کمی ہوجائے یا وہ ضائع ہوجائے تو کام میں لانے والا اس کا ضامن ہوگا کیونکہ اس نے مال غیر میں بلا اجازت تصرف کیا ہے جو اس کے لیے شرعاً جائز نہ تھا۔ (3) اصلاحی صاحب اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:’’میرے نزدیک یہود میں مروج یہ ایک حکایت ہے ضروری نہیں کہ یہ حقیقی واقعہ ہو۔ اہل کتاب میں یہود کا مزاج اسی طرح کا ہے۔‘‘ (تدبرحدیث:566/1) گویا مولانا اصلاحی اور ان کے ہمنواؤں کے نزدیک یہ کوئی سچی حکایت نہیں بلکہ ایک فرضی داستان ہے۔ نعوذ بالله من هذه الهفوات الإصلاحي و أنصاره