تشریح:
(1) حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی ؓ کا واقعہ امام طحاوی ؒ نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (شرح معاني الآثار:147/3) اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ شخصی ضمانت لی جاسکتی ہے کیونکہ انھوں نے زانی آدمی کے متعلق شخصی ضمانت لی تاکہ وہ بھاگ نہ جائے۔حضرت عمر ؓ اور دیگر صحابۂ کرام ؓ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ (2) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا واقعہ بھی یہاں مختصر طور پر بیان ہوا ہے، چنانچہ سنن کبری بیہقی میں اس کی تفصیل ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ سے ایک شخص نے بیان کیا کہ ابن نواحہ اذان دیتے وقت یوں کہتا ہے: (أشهد أن مسيلمة رسول الله)حضرت عبداللہ بن مسعود ؓنے ابن نواحہ اور اس کے ساتھیوں کو بلایا،مؤذن ابن نواحہ کو توقتل کردیا اور دیگر ساتھیوں کے متعلق مشورہ کیا۔ حضرت عدی بن حاتم نے کہا کہ انھیں بھی قتل کردیا جائے لیکن حضرت جریر اور اشعث نے کہا کہ ان سے توبہ کرائیں اور ضمانت لیں کہ آئندہ اس جرم کا ارتکاب نہیں کریں گے۔ وہ ایک سو ستر آدمی تھے ۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:206/8، وفتح الباري:592/4) بہر حال امام بخاری ؒ نے ان واقعات سے شخصی ضمانت کو ثابت کیا ہے اور اس پر مالی ضمانت کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔والله أعلم.