تشریح:
(1) اس روایت کے ذریعے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف سے ﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ﴾ کی وضاحت کی گئی ہے۔ ان کے نزدیک قسم اٹھا کر عہدو پیمان باندھنے والوں سے مراد انصار ہیں جنھوں نے مؤاخات کے سبب مہاجرین کو وراثت میں شامل کرلیا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ کے کہنے کے مطابق ﴿وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ﴾ کے نزول کے بعد ترکے میں حصے کی اجازت ختم ہوگئی، البتہ مؤاخات صرف مدد،اعانت اور خیرخواہی تک محدود ہوگئی۔ (2) امام بخاری ؒ نے عنوان سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ کفالہ کا مقصد یہ ہے کہ حصول ثواب کےلیے کسی چیز کو اپنے ذمے کرلیا جائے تو وہ لازم ہوجاتی ہے جیسے قسم اٹھا کر عہد کرنے سے وراثت کا استحقاق لازم ہوجاتا تھا۔ شارح بخاری ابن منیر ؒنے لکھا ہے کہ کفالت کے باب میں امام بخاری یہ روایت اس لیے لائے ہیں کہ جب آغاز اسلام میں عقد حلف سے ترکے کا استحقاق پیدا ہوجاتاتھا تو کفالت سے بھی مال کی ذمہ داری کفیل پر عائد ہوگی کیونکہ وہ بھی ایک عقد ہے۔ (فتح الباري:596/4) (3) امام بخاری ؒ نے جس آیت کو باب کے طور پر پیش کیا ہے اس میں وارد لفظ عَقَدَتْ کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے۔ عاصم، حمزہ اور کسائی کی قراءت عَقَدَتْ ہے جو ہمارے ہاں معروف ہے اور دیگر قراءاسے عاقدت پڑھتے ہیں،تاہم دونوں کے معنی میں کوئی فرق نہیں۔ (إرشاد الساري:263/5)