باب:(اس بیان میں کہ) ایمان والوں کا عمل میں ایک دوسرے سے بڑھ جانا (عین ممکن ہے)۔
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: The grades in superiority of the believers will be according to their good deeds)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
23.
حضرت ابوسعید خدری ؓ ہی سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں ایک مرتبہ سو رہا تھا کہ بحالت خواب لوگوں کو دیکھا، وہ میرے سامنے لائے جاتے ہیں اور وہ کُرتے پہنے ہوئے ہیں۔ بعض کے کُرتے چھاتیوں تک ہیں اور کچھ لوگوں کے اس سے بھی کم۔ اور عمر بن خطابؓ کو میرے سامنے اس حالت میں لایا گیا کہ وہ کُرتا پہنے ہوئے ہیں اور اسے زمین پر گھسیٹ رہے ہیں۔‘‘ صحابہ ؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ اس کی کیا تعبیر کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’دین۔‘‘
تشریح:
1۔ دین اورکُرتے میں مناسبت یہ ہے کہ کُرتے کے ذریعے سے انسان اپنے باہر کی حفاظت کرتا ہے، یہ بدن کی گرمی اورسردی سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ زیبائش بدن کا کام بھی دیتا ہے۔ اسی طرح دین بھی انسان کا محافظ ہے، اس کے لیے اعلیٰ زینت وزیبائش ہے، جہنم کی گرمی وسردی سے انسان کو بچاتا ہے۔ جب دین حاصل ہوجائے تو ہر چیز کی طرف قدم بڑھانے میں سہولت رہتی ہے۔ انسان دینداری کی بدولت اللہ کے ہاں معزز ومقبول ہو جاتا ہے اس بنا پر اہل دنیا بھی اس کی عزت کرتے ہیں۔ 2۔ اس حدیث میں قمیص کے متعلق تین مراتب بیان ہوئے ہیں، یعنی چھاتیوں تک، اس سے بھی کم اور زمین پر گھسیٹتے ہوئے۔ پھر اس کی تعبیر دین سے کی گئی ہے گویا یہ ثابت ہوا کہ اہل ایمان میں دین کے اعتبار سے تفاضل ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود بھی یہی ہے کہ دین یعنی ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ ( فتح الباري: 101/1) 3۔ اس حدیث کے پیش نظر اہل تعبیر کہتے ہیں کہ خواب میں قمیص دیکھنا دینداری کی علامت ہے اور اپنی قمیص کو گھسیٹتے ہوئے دیکھنا، اس بات کی علامت ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس کے دینی اثرات تادیر باقی رہیں گے، نیز اس کی باقیات صالحات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس حالت میں دیکھنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ کفر کے اثرات مٹائیں گے اور ان کے ایمانی اثرات تادیر باقی رہیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زندہ کارناموں نے اس خواب کو سچا کردکھایا۔ ( شرح الکرماني: 119/1) 4۔ اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک جزوی فضیلت کوظاہر کیا گیا ہے کہ ان کے عہد میں فتوحات کی کثرت ہوگی "عَلَيْهِ قَمِيصٌ يَجُرُّهُ" میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ یہ جزوی فضیلت حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی افضلیت کا مقابلہ نہیں کرسکتی کیونکہ ان کی افضلیت پر امت عادلہ کا اجماع ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات کے لیے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے راستہ ہموار کیا تھا۔ فاروق اعظم نے ان کی صاف کی ہوئی شاہراہ پر چلنا شروع کیا تو فتوحات کا ایک طویل وعریض سلسلہ شروع ہوگیا۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں سب سے بڑے دیندار حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور ان کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا درجہ ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
23
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
23
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
23
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
23
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت ابوسعید خدری ؓ ہی سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں ایک مرتبہ سو رہا تھا کہ بحالت خواب لوگوں کو دیکھا، وہ میرے سامنے لائے جاتے ہیں اور وہ کُرتے پہنے ہوئے ہیں۔ بعض کے کُرتے چھاتیوں تک ہیں اور کچھ لوگوں کے اس سے بھی کم۔ اور عمر بن خطابؓ کو میرے سامنے اس حالت میں لایا گیا کہ وہ کُرتا پہنے ہوئے ہیں اور اسے زمین پر گھسیٹ رہے ہیں۔‘‘ صحابہ ؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ اس کی کیا تعبیر کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’دین۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ دین اورکُرتے میں مناسبت یہ ہے کہ کُرتے کے ذریعے سے انسان اپنے باہر کی حفاظت کرتا ہے، یہ بدن کی گرمی اورسردی سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ زیبائش بدن کا کام بھی دیتا ہے۔ اسی طرح دین بھی انسان کا محافظ ہے، اس کے لیے اعلیٰ زینت وزیبائش ہے، جہنم کی گرمی وسردی سے انسان کو بچاتا ہے۔ جب دین حاصل ہوجائے تو ہر چیز کی طرف قدم بڑھانے میں سہولت رہتی ہے۔ انسان دینداری کی بدولت اللہ کے ہاں معزز ومقبول ہو جاتا ہے اس بنا پر اہل دنیا بھی اس کی عزت کرتے ہیں۔ 2۔ اس حدیث میں قمیص کے متعلق تین مراتب بیان ہوئے ہیں، یعنی چھاتیوں تک، اس سے بھی کم اور زمین پر گھسیٹتے ہوئے۔ پھر اس کی تعبیر دین سے کی گئی ہے گویا یہ ثابت ہوا کہ اہل ایمان میں دین کے اعتبار سے تفاضل ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود بھی یہی ہے کہ دین یعنی ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ ( فتح الباري: 101/1) 3۔ اس حدیث کے پیش نظر اہل تعبیر کہتے ہیں کہ خواب میں قمیص دیکھنا دینداری کی علامت ہے اور اپنی قمیص کو گھسیٹتے ہوئے دیکھنا، اس بات کی علامت ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس کے دینی اثرات تادیر باقی رہیں گے، نیز اس کی باقیات صالحات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس حالت میں دیکھنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ کفر کے اثرات مٹائیں گے اور ان کے ایمانی اثرات تادیر باقی رہیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زندہ کارناموں نے اس خواب کو سچا کردکھایا۔ ( شرح الکرماني: 119/1) 4۔ اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک جزوی فضیلت کوظاہر کیا گیا ہے کہ ان کے عہد میں فتوحات کی کثرت ہوگی "عَلَيْهِ قَمِيصٌ يَجُرُّهُ" میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ یہ جزوی فضیلت حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی افضلیت کا مقابلہ نہیں کرسکتی کیونکہ ان کی افضلیت پر امت عادلہ کا اجماع ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات کے لیے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے راستہ ہموار کیا تھا۔ فاروق اعظم نے ان کی صاف کی ہوئی شاہراہ پر چلنا شروع کیا تو فتوحات کا ایک طویل وعریض سلسلہ شروع ہوگیا۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں سب سے بڑے دیندار حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور ان کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا درجہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبیداللہ نے یہ حدیث بیان کی، ان سے ابراہیم بن سعد نے، وہ صالح سے روایت کرتے ہیں، وہ ابن شہاب سے، وہ ابوامامہ بن سہل بن حنیف سے راوی ہیں، وہ حضرت ابوسعید خدری ؓ سے، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں ایک وقت سو رہا تھا، میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں اور وہ کرتے پہنے ہوئے ہیں۔ کسی کا کرتہ سینے تک ہے اور کسی کا اس سے نیچا ہے۔ (پھر) میرے سامنے عمر بن الخطاب لائے گئے۔ ان (کے بدن) پر (جو) کرتا تھا۔ اسے وہ گھسیٹ رہے تھے۔ (یعنی ان کا کرتہ زمین تک نیچا تھا)‘‘ صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اس کی کیا تعبیر ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’(اس سے) دین مراد ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ دین حضرت عمرؓ کی ذات میں اس طرح جمع ہوگیا کہ کسی اور کو یہ شرف حاصل نہیں ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی شخصیت اپنی فداکاری وجان نثاری اور دینی عظمت واہلیت کے لحاظ سے حضرت عمر ؓ سے بھی بڑھ کر ہے اور بزرگی وعظمت میں وہ سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ مگر اسلام کی جو ترقی اور بحیثیت دین کے جو شوکت حضرت عمر ؓ کی ذات سے ہوئی وہ بہت بڑھ چڑھ کر ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کا کرتہ سب سے بڑا تھا، اس لیے ان کی دینی فہم بھی اوروں سے بڑھ کر تھی۔ دین کی اسی کمی بیشی میں ان کی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ ایمان کم وبیش نہیں ہوتا۔ اس روایت کے نقل کرنے سے حضرت امام بخاری کا یہی مقصد ہے۔ "وَمُطَابَقَتُهُ لِلتَّرْجَمَةِ ظَاهِرَةٌ مِنْ جِهَةِ تَأْوِيلِ الْقُمُصِ بِالدِّينِ وَقَدْ ذُكِرَ أَنَّهُمْ مُتَفَاضِلُونَ فِي لُبْسِهَا فَدَلَّ عَلَى أَنَّهُمْ مُتَفَاضِلُونَ فِي الْإِيمَان. (فتح)" یعنی حدیث اور باب کی مطابقت بایں طور پر ظاہر ہے کہ قمیصوں سے دین مراد ہے اور مذکور ہوا کہ لوگ ان کے پہننے میں کمی بیشی کی حالت میں ہیں۔ یہی دلیل ہے کہ وہ ایمان میں بھی کم وبیش ہیں۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: "وفي هذا الحديث التشبيه البليغ وهو تشبيه الدين بالقميص لأنه يستر عورة الإنسان، وكذلك الدين يستره من النار. وفيه الدلالة على التفاضل في الإيمان كما هو مفهوم تأويل القميص، وبالدين مع ما ذكره من أن اللابسين يتفاضلون في لبسه." ’’ یعنی اس حدیث میں ایک گہری بلیغ تشبیہ ہے جو دین کو قمیص کے ساتھ دی گئی ہے، قمیص انسان کے جسم کو چھپانے والی ہے، اسی طرح دین اسے دوزخ کی آگ سے چھپالے گا، اس میں ایمان کی کمی بیشی پر بھی دلیل ہے جیسا کہ قمیص کے ساتھ دین کی تعبیر کا مفہوم ہے۔ جس طرح قمیص پہننے والے اس کے پہننے میں کم وبیش ہیں اسی طرح دین میں بھی لوگ کم وبیش درجات رکھتے ہیں۔‘‘ پس ایمان کی کمی وبیشی ثابت ہوئی۔ اس حدیث کے جملہ راوی مدنی ہیں حضرت امام المحدثین آگے ان چیزوں کا بیان شروع فرما رہے ہیں، جن کے نہ ہونے سے ایمان میں نقص لازم آتا ہے۔ چنانچہ اگلا باب اس مضمون سے متعلق ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "While I was sleeping I saw (in a dream) some people wearing shirts of which some were reaching up to the breasts only while others were even shorter than that. Umar bin Al-Khattab (RA) was shown wearing a shirt that he was dragging." The people asked, "How did you interpret it? (What is its interpretation) O Allah's Apostle?" He (the Prophet (ﷺ)) replied, "It is the Religion".