تشریح:
1۔ دین اورکُرتے میں مناسبت یہ ہے کہ کُرتے کے ذریعے سے انسان اپنے باہر کی حفاظت کرتا ہے، یہ بدن کی گرمی اورسردی سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ زیبائش بدن کا کام بھی دیتا ہے۔ اسی طرح دین بھی انسان کا محافظ ہے، اس کے لیے اعلیٰ زینت وزیبائش ہے، جہنم کی گرمی وسردی سے انسان کو بچاتا ہے۔ جب دین حاصل ہوجائے تو ہر چیز کی طرف قدم بڑھانے میں سہولت رہتی ہے۔ انسان دینداری کی بدولت اللہ کے ہاں معزز ومقبول ہو جاتا ہے اس بنا پر اہل دنیا بھی اس کی عزت کرتے ہیں۔
2۔ اس حدیث میں قمیص کے متعلق تین مراتب بیان ہوئے ہیں، یعنی چھاتیوں تک، اس سے بھی کم اور زمین پر گھسیٹتے ہوئے۔ پھر اس کی تعبیر دین سے کی گئی ہے گویا یہ ثابت ہوا کہ اہل ایمان میں دین کے اعتبار سے تفاضل ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود بھی یہی ہے کہ دین یعنی ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ ( فتح الباري: 101/1)
3۔ اس حدیث کے پیش نظر اہل تعبیر کہتے ہیں کہ خواب میں قمیص دیکھنا دینداری کی علامت ہے اور اپنی قمیص کو گھسیٹتے ہوئے دیکھنا، اس بات کی علامت ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس کے دینی اثرات تادیر باقی رہیں گے، نیز اس کی باقیات صالحات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس حالت میں دیکھنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ کفر کے اثرات مٹائیں گے اور ان کے ایمانی اثرات تادیر باقی رہیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زندہ کارناموں نے اس خواب کو سچا کردکھایا۔ ( شرح الکرماني: 119/1)
4۔ اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک جزوی فضیلت کوظاہر کیا گیا ہے کہ ان کے عہد میں فتوحات کی کثرت ہوگی "عَلَيْهِ قَمِيصٌ يَجُرُّهُ" میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ یہ جزوی فضیلت حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی افضلیت کا مقابلہ نہیں کرسکتی کیونکہ ان کی افضلیت پر امت عادلہ کا اجماع ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات کے لیے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے راستہ ہموار کیا تھا۔ فاروق اعظم نے ان کی صاف کی ہوئی شاہراہ پر چلنا شروع کیا تو فتوحات کا ایک طویل وعریض سلسلہ شروع ہوگیا۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں سب سے بڑے دیندار حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور ان کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا درجہ ہے۔