تشریح:
1۔ ان احادیث کے پیش نظر امام بخاری ؒ کا رجحان نجاست منی کی طرف معلوم ہوتا ہے، کیونکہ آپ نے ان احادیث پر غسل منی کا عنوان قائم کیا ہے۔ جیسے قبل ازیں غسل بول اور غسل مذی کا عنوان قائم کر چکے ہیں۔ آئندہ ایک عنوان غسل جنابت ہے۔ امام بخاری ؒ جس چیز کے متعلق غسل کا عنوان قائم کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک نجس ہوتی ہے۔ آپ نے اس عنوان میں فرک منی کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ منی سے تطہیر فرک (کھرچنے) سے بھی ہو جاتی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں طہارت کی مختلف صورتیں ہیں اور اس کے حصول کے بھی متعدد طریقے ہیں، کیونکہ جن چیزوں سے نجاست متعلق ہو جاتی ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں، ان کے متعلق یہ کہنا کہ دھونے کے علاوہ دیگر تمام طریقے طہارت کی علامت لازمہ ہیں درست نہیں۔ طہارت کی مختلف صورتیں حسب ذیل ہیں: * استنجا کے لیے ڈھیلوں کا استعمال جائز ہے، پانی سے طہارت حاصل کرنا ضروری نہیں۔ * جوتوں کی نجاست لگی ہو تو انھیں پاک زمین پر رگڑ دیا جائے تو پاک ہو جائیں گے، انھیں دھونے کی ضرورت نہیں۔ * جن چیزوں میں نجاست اندر داخل نہ ہو، جیسے شیشہ وغیرہ ان کی طہارت صرف مسح سے ہو جاتی ہے۔ * زمین نجاست آلود ہو تو خشک ہونے پر خود بخود پاک ہو جائے گی۔ بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکنا ہی کافی ہے، اسے بھی دھونے کی ضرورت نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ شریعت میں طہارت حاصل کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ اسی طرح اگر کپڑے کو منی لگ جائے تو اس کی طہارت کے دو طریقے ہیں: اسے دھودیا جائے یا اسے کھرچ ڈالا جائے۔ اب اگر فرک (رگڑنے) ہی کو دلیل طہارت بنا لیا جائے تو ایسا ہوگا کہ کسی شخص کا موزہ نجاست آلود ہوجائے اور وہ اسے زمین پر رگڑ کر پاک کرلے تو کہا جائے کہ اگر اس کا زمین پر رگڑنا دلیل طہارت ہے تو اس نجاست کے متعلق کیا حکم ہے جو اسے لگی ہوئی ہے اگر فرک منی طہارت منی کے لیے دلیل ہے تو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں کم ازکم ایک مرتبہ بیان جواز کے طور پر آلودہ کپڑوں میں نماز پڑھنے کا ثبوت ضرور ملنا چاہیے۔ ہاں مفروک کپڑے میں نماز پڑھنا ثابت ہے، کیونکہ فرک بھی منی سے طہارت حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے جس کاذکر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عنوان میں کیا ہے۔
2۔ منی نجس ہے، اس کی نجاست کے دلائل حسب ذیل ہیں:۔ * قرآن کریم میں اسے ﴿مَّاءٍ مَّهِينٍ﴾ حقیر پانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (المرسلات77۔20) کسی پاکیزہ چیز کے متعلق یہ انداز اختیار نہیں کیا جاتا. * جب حدث اصغر کا سبب پیشاب ناپاک ہے تو حدث اکبر کا سبب منی بطریق اولیٰ ناپاک ہونا چاہیے۔ * صحیح احادیث سے ازالہ منی کا ثبوت غسل، فرک، مسح، حت اور حک کے الفاظ سے ملتا ہے جو اس کی نجاست کے لیے واضح دلیل ہے۔ * حضرت معاویہ ؓ نے حضرت حفصہ ؓ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ جماع کے کپڑوں میں نماز پڑھ لیتے تھے تو آپ نے فرمایا کہ اگر ان میں نجاست کا اثر نہ دیکھتے تو ان میں نماز پڑھ لیتے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 366) اس میں دو طرح سے منی کی نجاست پر دلیل لی گئی ہے:۔ * اسے اذی سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ حیض کو اذی کہا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ منی ناپاک ہے۔ * رسول اللہ ﷺ کا اس کی موجود گی میں نماز نہ پڑھنا بھی اس کے ناپاک ہونے کی دلیل ہے۔ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ کپڑے یا جسم پر منی کو بدستورباقی رکھنے کا ثبوت ہوتا۔ حدیث الباب کے الفاظ (كُنْتُ أَغْسِلُ الْجَنَابَةَ) بھی نجاست منی کی دلیل ہیں۔ اس پر علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے نجاست منی پر استدلال صحیح نہیں کیونکہ غسل منی نجاست کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اس کی گزر گاہ نجس ہے یا بوجہ اختلاط رطوبت فرج ہے۔ (شرح الكرمانی: 82/2) علامہ عینی کہتے ہیں کہ مستقر منی اور مستقر بول دونوں الگ الگ ہیں۔ اسی طرح ان کے مخرج بھی جدا جدا ہیں۔ لہٰذا گزرگاہ کے نجس ہونے کی بات بے دلیل ہے اور نجاست رطوبت فرج کا مسئلہ بھی اختلافی ہے۔ اس کی وجہ سے بھی استدلال مذکورہ کو کمزور نہیں کہہ سکتے۔ (عمدة القاري: 639/2)