باب: اپنے (کسی) ساتھی کے قریب پیشاب کرنا اور دیوار کی آڑ لینا۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To urinate beside one's companion while screened by a wall)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
230.
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں خود کو اور نبی ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ ہم جا رہے ہیں۔ آپ کسی قوم کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر (گھورے) پر پہنچے جو ایک دیوار کی پشت پر تھا اور آپ وہاں اس طرح کھڑے ہوئے جس طرح تم میں سے کوئی شخص کھڑا ہوتا ہے، پھر پیشاب کیا۔ میں آپ کے قریب سے ہٹ گیا۔ آپ نے اشارے سے مجھے بلایا۔ میں حاضر ہوا اور آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا تا آنکہ آپ پیشاب سے فارغ ہو گئے۔
تشریح:
1۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب قضائے حاجت کے لیے باہر جاتے تو بہت دور تشریف لے جاتے اورآپ کوکوئی دیکھ نہ سکتاتھا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 2۔1) براز(پاخانے) کے لیے چونکہ دوطرفہ پردے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے آپ دور تشریف لے جایا کرتے تھے۔ پیشاب میں ایک طرف آڑ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا براز کی طرح دور جانے کے اہتمام کی ضرورت نہیں۔ وہ لوگوں کی موجودگی میں بلکہ کسی کو پردے کی غرض سے پاس کھڑا کر کے بھی یہ حاجت پوری کی جاسکتی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی مقصد کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اورحدیث حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دوبارہ پیش کیا ہے۔ عرب کے ہاں بول وبراز کے وقت بے حجابی عام تھی، اس کا تعلق اسلامی تہذیب سے نہ تھا، رسول اللہ ﷺ نے اسلامی تہذیب کو بایں الفاظ واضح کردیا ہے: ’’ دو شخص اس طرح قضائے حاجت کے لیے نہ نکلیں کہ اس وقت ایک دوسرے کے سامنے اپنا ستر کھولیں اور آپس میں باتیں کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے سے نارض ہوتا ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 15) 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے قریب بلانا اشارے سے تھا، زبان سے بول کر نہیں بلایا تھا۔ اور روایت بخاری کے پیش نظر صحیح مسلم کے الفاظ کو اشارہ غیر لفظیہ پر محمول کریں گے، لہٰذا اس حدیث سے حالت بول میں جواز کلام پر استدلال درست نہیں ہے۔ (فتح الباري: 429/1) رسول اللہ ﷺ ایسے وقت میں سلام کا جواب بھی نہیں دیتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ آپ پیشاب کررہے تھے کہ ایک آدمی نے آپ کو سلام کہا تو آپ نے اس کا جواب نہ دیا۔(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 16)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
227
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
225
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
225
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
225
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں خود کو اور نبی ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ ہم جا رہے ہیں۔ آپ کسی قوم کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر (گھورے) پر پہنچے جو ایک دیوار کی پشت پر تھا اور آپ وہاں اس طرح کھڑے ہوئے جس طرح تم میں سے کوئی شخص کھڑا ہوتا ہے، پھر پیشاب کیا۔ میں آپ کے قریب سے ہٹ گیا۔ آپ نے اشارے سے مجھے بلایا۔ میں حاضر ہوا اور آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا تا آنکہ آپ پیشاب سے فارغ ہو گئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب قضائے حاجت کے لیے باہر جاتے تو بہت دور تشریف لے جاتے اورآپ کوکوئی دیکھ نہ سکتاتھا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 2۔1) براز(پاخانے) کے لیے چونکہ دوطرفہ پردے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے آپ دور تشریف لے جایا کرتے تھے۔ پیشاب میں ایک طرف آڑ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا براز کی طرح دور جانے کے اہتمام کی ضرورت نہیں۔ وہ لوگوں کی موجودگی میں بلکہ کسی کو پردے کی غرض سے پاس کھڑا کر کے بھی یہ حاجت پوری کی جاسکتی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی مقصد کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اورحدیث حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دوبارہ پیش کیا ہے۔ عرب کے ہاں بول وبراز کے وقت بے حجابی عام تھی، اس کا تعلق اسلامی تہذیب سے نہ تھا، رسول اللہ ﷺ نے اسلامی تہذیب کو بایں الفاظ واضح کردیا ہے: ’’ دو شخص اس طرح قضائے حاجت کے لیے نہ نکلیں کہ اس وقت ایک دوسرے کے سامنے اپنا ستر کھولیں اور آپس میں باتیں کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے سے نارض ہوتا ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 15) 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے قریب بلانا اشارے سے تھا، زبان سے بول کر نہیں بلایا تھا۔ اور روایت بخاری کے پیش نظر صحیح مسلم کے الفاظ کو اشارہ غیر لفظیہ پر محمول کریں گے، لہٰذا اس حدیث سے حالت بول میں جواز کلام پر استدلال درست نہیں ہے۔ (فتح الباري: 429/1) رسول اللہ ﷺ ایسے وقت میں سلام کا جواب بھی نہیں دیتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ آپ پیشاب کررہے تھے کہ ایک آدمی نے آپ کو سلام کہا تو آپ نے اس کا جواب نہ دیا۔(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 16)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان ابن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابووائل سے، وہ حذیفہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں اور رسول کریم ﷺ جا رہے تھے کہ ایک قوم کی کوڑی پر (جو) ایک دیوار کے پیچھے (تھی) پہنچے۔ تو آپ اس طرح کھڑے ہو گئے جس طرح ہم تم میں سے کوئی (شخص) کھڑا ہوتا ہے۔ پھر آپ نے پیشاب کیا اور میں ایک طرف ہٹ گیا۔ تب آپ نے مجھے اشارہ کیا تو آپ کے پاس (پردہ کی غرض سے) آپ کی ایڑیوں کے قریب کھڑا ہو گیا۔ یہاں تک کہ آپ پیشاب سے فارغ ہو گئے۔ (بوقت ضرورت ایسا بھی کیا جا سکتا ہے۔)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hudhaifa': The Prophet (ﷺ) and I walked till we reached the dumps of some people. He stood, as any one of you stands, behind a wall and urinated. I went away, but he beckoned me to come. So I approached him and stood near his back till he finished.