تشریح:
(1) سونے چاندی اور کرنسی کے تبادلے کو صَرف کہا جاتا ہے۔ اس بیع میں وہم ہو سکتا ہے کہ شاید اس میں وکالت جائز نہ ہو کیونکہ اس بیع میں عوضین (سونے یا چاندی) کے قبض سے پہلے تفارق (ایک دوسرے سے الگ ہونا) جائز نہیں، وکالت میں مؤکل اصل ہے جو عقد کے وقت موجود نہیں ہوتا تو قبض کے بغیر تفارق لازم آتا ہے، اس وہم کو امام بخاری ؒ نے دور کیا ہے کہ وکیل ہی براہِ راست عقد کرنے والا ہے، لہٰذا سب حقوق اسی کی طرف راجع ہوں گے، وکیل کا قبضہ اصیل کا قبضہ شمار ہوگا۔ بہر حال بیع صرف وکالتًا جائز ہے اور مؤکل کی جگہ وکیل کا قبضہ بھی معتبر ہے۔
(2) اس حدیث میں ہے کہ ماپ سے خرید و فروخت والی اشیاء کو ایک صاع، دو صاع کے عوض مت لو بلکہ انھیں دراہم سے فروخت کرو، پھر دراہم سے دوسری عمدہ کھجور خرید لو، اسی طرح وزن سے خرید و فروخت والی اشیاء کا بھی یہی حکم ہے۔
(3) اس حدیث سے عنوان کی مناسبت اس طرح ہے کہ جب وکیل کو دو صاع کے عوض ایک صاع لینے سے منع کیا گیا تو معلوم ہوا کہ درہم کی بیع درہم سے اور دینار کی بیع دینار سے بھی اسی طرح ہے۔ اس میں توکیل کے معنی بھی واضح ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے عامل کو اس طرح کرنے میں وکیل مقرر کیا تھا۔