تشریح:
(1) اگر کوئی چیز خراب ہورہی ہو تو مالک سے پوچھنے کی ضرورت نہیں بلکہ وکیل یا ملازم اسے خود ہی ٹھیک کر دے۔ اسی طرح چرواہے بکریاں چراتے ہیں، ممکن ہے کہ کوئی بکری بیمار ہوجائے یا کوئی درندہ اسے زخمی کردے اور وہ ہلاکت کے قریب ہوجائے تو مالک کے مفاد میں ہے کہ اسے مرنے سے پہلے پہلے ذبح کردیا جائے۔ اگر مالک سے پیشگی اجازت لینا ضروری قرار دیا جائے تو بکری ہلاک ہوجائے گی۔ بہر حال اس قسم کی صورت میں بطور وکیل قدم اٹھانے کی اجازت ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہواکہ اگر کسی کام کے لیے کوئی وکیل مقرر کیا گیا ہے تو جب تک اس کی خیانت ظاہر نہ ہو اس کی تصدیق کرنا جائز ہے۔ (3) امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے ذبیحہ کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں بحث کرنا مقصود نہیں بلکہ آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ چرواہے اور وکیل سے ضمان ساقط ہوگی، اس قسم کے نقصان ہونے کی صورت میں ان پر کوئی تاوان نہیں ہوگا، مگر وکیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ مؤکل کا مال ہڑپ کرنے کے لیے اس قسم کا راستہ اختیار نہ کرے۔ (فتح الباري:607/4) آخر میں بیان کردہ متابعت کو خود امام بخاری رحمہ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔(صحیح البخاري، الذبائح، حدیث:5504)