تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر ناپاک منی کو اچھی طرح دھو دیا جائے، اس کے باوجود اس کا دھبا زائل نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ اسے کسی خارجی چیز سے دھونے کی ضرورت نہیں۔ ان دھبوں کو زائل کرنا محض تکلف ہے۔ اسی طرح کپڑے کو خشک کرنے کی بھی ضرورت نہیں اگر پانی کے نشانات کپڑے پر نظر آتے ہیں تو چنداں حرج نہیں۔ شارحین کا اختلاف ہے کہ دھبوں سے مراد پانی کے دھبے ہیں یا منی کے؟ دراصل روایت میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں:۔ * پانی کے دھبے کپڑے میں موجود ہوتے تھے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:229) * دھونے کے دھبے کپڑے میں موجود ہوتے تھے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:230) * پھر میں کپڑے پر دھبے دیکھتی تھی۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:232) ان آخری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ دھونے کے بعد اس کپڑے میں منی کے دھبے نظر آتے تھے۔ پہلے اور دوسرے الفاظ سے پانی کے دھبے معلوم ہوتے ہیں، بہر حال دھونے کے بعد دھبوں کا بقا نقصان دہ نہیں۔
2۔ امام بخاری ؒ نے جنابت کے ساتھ غیرھا کا ذکر بھی کیا ہے، لیکن حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔ البتہ جنابت کا حکم معلوم کر لینے کے بعد دیگر نجاستوں کو اس پرقیاس کیا جا سکتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت خولہ بنت یسار ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول الله ﷺ ! میرے پاس صرف ایک کپڑا ہے حالت حیض میں وہ ملوث ہو جاتا ہے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا :’’جب تم پاک ہو جایا کرو تو اسے دھولیا کرو۔‘‘ عرض کیا :اگر اس سے خون کا دھبا نہ جائے تو؟آپ نے فرمایا :’’پانی سے دھولینا کافی ہے۔ اس کے بعد اگر نشان رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔‘‘ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:365) غیرھا کا لفظ بڑھانے سے یہ مقصد بھی ہو سکتا ہے کہ یہ حکم منی سے مخصوص نہیں دیگر نجاستوں کا بھی یہی حکم ہے۔ اگر یہ معنی لیا جائے تو حدیث الباب میں اسے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ واللہ أعلم۔