Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To urinate near the dumps of some people)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
231.
حضرت ابووائل سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ پیشاب کے معاملے میں بہت تشدد سے کام لیتے تھے اور کہتے تھے کہ بنی اسرائیل میں اگر کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا تو وہ متاثرہ کپڑے کو کاٹ دیتا تھا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: کاش وہ ایسا (تشدد) نہ کرتے۔ رسول اللہ ﷺ کسی قوم کے گھورے پر تشریف لے گئے اور وہاں آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
تشریح:
1۔ شارحین نے اس باب سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی متعدد اغراض ذکر کی ہیں: (1)۔ شاہ ولی اللہ تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر (گھورے) اگرچہ کسی دوسرے کی ملکیت ہوتے ہیں، لیکن ان پر بول و براز کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں، کیونکہ انھیں گندگی جمع کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ اس لیے پیشاب کرنا اس قسم کا تصرف نہیں جس سے مالک ناراض ہو۔ (2)۔ اس عنوان سے گندگی کے مقامات پر پیشاب کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ ایسی جگہوں پر کھڑے ہو کر پیشاب کرنا چاہیے بیٹھ کر پیشاب کرنے سے کپڑوں اور بدن کی آلودگی کا اندیشہ ہے۔ 2۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تقویٰ طہارت کی بنا پر پیشاب کے معاملے میں بہت متشدد تھے۔ وہ اپنے ساتھ شیشے کی بوتل رکھتے، اس میں پیشاب کر کے اسے زمین پر بہا دیتے۔ ابن منذر نے اس کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی شخص کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا تو فرمایا: تمھیں کھڑے ہو کر نہیں بلکہ بیٹھ کر پیشاب کرنا چاہیے تھا۔ بنی اسرائیل کا عمل یہ تھا کہ اگر کسی شخص کے کپڑے کو نجاست لگ جاتی تو وہ اسے کاٹ ڈالتا تھا، لہٰذا ہمیں بھی پیشاب کے سلسلے میں احتیاط کرنی چاہیے ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے وضاحت فرمائی کہ پیشاب کے معاملے میں اتنے تشدد کی ضرورت نہیں، کیونکہ دین اسلام کی بنیاد یُسر وسہولت پر ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے (گھورے پر) کھڑے ہو کر پیشاب کیا اور اس طرح پیشاب کرنے میں باریک باریک چھینٹوں کا اندیشہ باقی رہتا ہے، لیکن آپ نے اس قسم کے دور از کار احتمالات کی بالکل پروا نہیں کی۔ 3۔ علامہ ابن بطال نے لکھا ہے کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی روایت ان لوگوں کی دلیل ہے جو پیشاب کے معمولی چھینٹوں کو قابل معافی سمجھتے ہیں، کیونکہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے سوئی کی نوک کے برابر چھینٹوں کے اڑنے اور ان کے کپڑوں پر آنے کا احتمال تو عام طور پر باقی رہتا ہے، پھر سوئی کی نوک کے برابر پیشاب کے چھینٹوں کے متعلق اختلاف ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے انھیں دھونا مستحب قراردیا ہے جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اسے واجب کہتے ہیں اور اہل کوفہ نے دوسری نجاستوں کی طرح اس میں بھی سہولت اور رخصت دی ہے۔ (شرح ابن بطال:337/1) 4۔ اصلاحی صاحب نے تدبر حدیث کی آڑ میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہدف تنقید بنایا ہے لکھتے ہیں: ’’بنی اسرائیل سے متعلق ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات سنی سنائی معلوم ہوتی ہے اس زمانے میں عرب کے لوگوں کو سابقہ ادیان کے بارے میں جو معلومات حاصل تھیں وہ مدینہ اور اس کے قرب وجوار میں رہنے والے اہل کتاب سے سنی ہوئی تھیں۔ وہ صحیفوں سے براہ راست ناقدانہ واقفیت نہ رکھتے تھے۔‘‘ (تدبر حدیث: 318/1) حالانکہ یہود کے ہاں نجاسات کے معاملے میں بڑا تشدد تھا۔ قرآن کریم نے بھی اس طرف اشارہ فرمایا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾’’ اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں۔‘‘ (الأعراف:157/7) اس بوجھ اور طوق کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ ان یہودیوں کے ہاں جس کپڑے کو نجاست لگ جاتی اس کا قطع کرنا ضروری تھا جسے شریعت اسلامیہ نے صرف دھونے کا حکم دیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
228
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
226
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
226
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
226
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابووائل سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ پیشاب کے معاملے میں بہت تشدد سے کام لیتے تھے اور کہتے تھے کہ بنی اسرائیل میں اگر کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا تو وہ متاثرہ کپڑے کو کاٹ دیتا تھا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: کاش وہ ایسا (تشدد) نہ کرتے۔ رسول اللہ ﷺ کسی قوم کے گھورے پر تشریف لے گئے اور وہاں آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ شارحین نے اس باب سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی متعدد اغراض ذکر کی ہیں: (1)۔ شاہ ولی اللہ تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر (گھورے) اگرچہ کسی دوسرے کی ملکیت ہوتے ہیں، لیکن ان پر بول و براز کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں، کیونکہ انھیں گندگی جمع کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ اس لیے پیشاب کرنا اس قسم کا تصرف نہیں جس سے مالک ناراض ہو۔ (2)۔ اس عنوان سے گندگی کے مقامات پر پیشاب کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ ایسی جگہوں پر کھڑے ہو کر پیشاب کرنا چاہیے بیٹھ کر پیشاب کرنے سے کپڑوں اور بدن کی آلودگی کا اندیشہ ہے۔ 2۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تقویٰ طہارت کی بنا پر پیشاب کے معاملے میں بہت متشدد تھے۔ وہ اپنے ساتھ شیشے کی بوتل رکھتے، اس میں پیشاب کر کے اسے زمین پر بہا دیتے۔ ابن منذر نے اس کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی شخص کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا تو فرمایا: تمھیں کھڑے ہو کر نہیں بلکہ بیٹھ کر پیشاب کرنا چاہیے تھا۔ بنی اسرائیل کا عمل یہ تھا کہ اگر کسی شخص کے کپڑے کو نجاست لگ جاتی تو وہ اسے کاٹ ڈالتا تھا، لہٰذا ہمیں بھی پیشاب کے سلسلے میں احتیاط کرنی چاہیے ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے وضاحت فرمائی کہ پیشاب کے معاملے میں اتنے تشدد کی ضرورت نہیں، کیونکہ دین اسلام کی بنیاد یُسر وسہولت پر ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے (گھورے پر) کھڑے ہو کر پیشاب کیا اور اس طرح پیشاب کرنے میں باریک باریک چھینٹوں کا اندیشہ باقی رہتا ہے، لیکن آپ نے اس قسم کے دور از کار احتمالات کی بالکل پروا نہیں کی۔ 3۔ علامہ ابن بطال نے لکھا ہے کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی روایت ان لوگوں کی دلیل ہے جو پیشاب کے معمولی چھینٹوں کو قابل معافی سمجھتے ہیں، کیونکہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے سوئی کی نوک کے برابر چھینٹوں کے اڑنے اور ان کے کپڑوں پر آنے کا احتمال تو عام طور پر باقی رہتا ہے، پھر سوئی کی نوک کے برابر پیشاب کے چھینٹوں کے متعلق اختلاف ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے انھیں دھونا مستحب قراردیا ہے جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اسے واجب کہتے ہیں اور اہل کوفہ نے دوسری نجاستوں کی طرح اس میں بھی سہولت اور رخصت دی ہے۔ (شرح ابن بطال:337/1) 4۔ اصلاحی صاحب نے تدبر حدیث کی آڑ میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہدف تنقید بنایا ہے لکھتے ہیں: ’’بنی اسرائیل سے متعلق ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات سنی سنائی معلوم ہوتی ہے اس زمانے میں عرب کے لوگوں کو سابقہ ادیان کے بارے میں جو معلومات حاصل تھیں وہ مدینہ اور اس کے قرب وجوار میں رہنے والے اہل کتاب سے سنی ہوئی تھیں۔ وہ صحیفوں سے براہ راست ناقدانہ واقفیت نہ رکھتے تھے۔‘‘ (تدبر حدیث: 318/1) حالانکہ یہود کے ہاں نجاسات کے معاملے میں بڑا تشدد تھا۔ قرآن کریم نے بھی اس طرف اشارہ فرمایا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾’’ اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں۔‘‘ (الأعراف:157/7) اس بوجھ اور طوق کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ ان یہودیوں کے ہاں جس کپڑے کو نجاست لگ جاتی اس کا قطع کرنا ضروری تھا جسے شریعت اسلامیہ نے صرف دھونے کا حکم دیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے منصور کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابووائل سے نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری پیشاب ( کے بارہ ) میں سختی سے کام لیتے تھے اور کہتے تھے کہ بنی اسرائیل میں جب کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا۔ تو اسے کاٹ ڈالتے۔ ابوحذیفہ کہتے ہیں کہ کاش! وہ اپنے اس تشدد سے رک جاتے (کیونکہ) رسول اللہ ﷺ کسی قوم کی کوڑی پر تشریف لائے اور آپ نے وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت کی غرض یہ تھی کہ پیشاب سے بچنے میں احتیاط کرنا ہی چاہیے۔ لیکن خواہ مخواہ کا تشدد اور زیادتی سے وہم اور وسوسہ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے عمل میں اتنی ہی احتیاط چاہیے جتنی آدمی روزمرہ کی زندگی میں کر سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Wail (RA): Abu Musa (RA) Al-Ash'ari used to lay great stress on the question of urination and he used to say, "If anyone from Bani Israel happened to soil his clothes with urine, he used to cut that portion away." Hearing that, Hudhaifa said to Abu Wail, "I wish he (Abu Musa (RA)) didn't (lay great stress on that matter)." Hudhaifa added, "Allah's Apostle (ﷺ) went to the dumps of some people and urinated while standing."