تشریح:
(1) اس عنوان كا مقصد یہ ہے کہ وکالت کا معاملہ اس وقت تک پورا نہیں ہوتا جب تک وکیل اس وکالت کو قبول نہ کرلے۔ ’’جو تونے کہا اسے میں نے سن لیا ہے۔‘‘ اس سے مراد وکیل کا قبول کرنا اور اس کا اظہار آمادگی ہے۔ حضرت ابو طلحہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو بیر حاء کے متعلق اپنا وکیل ٹھہرایا تو آپ نے اس وکالت کو قبول فرمایا۔ آپ نے اسے رائے دی کہ اسے اپنی قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردیں۔ چونکہ رشتہ داروں کا حق مقدم ہے اور وہی وراثت میں حصہ پاتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کے حق کو ترجیح دی۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی دور اندیشی تھی۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ عقد وکالت اس وقت مکمل ہوگا جب وکیل اسے قبول کرلے۔ (فتح الباري:621/4) والله أعلم. (3) اسماعیل کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4554) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے وہ باغ حضرت حسان بن ثابت اور ابی بن کعب ؓ میں تقسیم کیا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ مجھے اس باغ سے کچھ نہیں ملا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4555)