Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The washing out of blood)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
232.
حضرت اسماء ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا: بتائیے ہم میں سے اگر کسی عورت کو حیض آئے اور کپڑے کو لگ جائے تو وہ کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: ’’اسے کھرچ ڈالے، پھر پانی ڈال کر رگڑے اور دھو ڈالے، پھر اس میں نماز پڑھ لے۔‘‘
تشریح:
1۔ پہلے بچے کے پیشاب کے متعلق بیان تھا کہ اگر دودھ پیتا ہے تو اس کے پیشاب کو دھونے کی ضرورت نہیں صرف اس پر چھینٹے مار لینا ہی کافی ہے۔ اب خون کے متعلق حکم بیان ہوا کہ اسے دھونا ہو گا اس کے بغیر طہارت حاصل نہیں ہو گی۔ اس پر صرف چھینٹے مارنے سے کام نہیں چلے گا رسول اللہ ﷺ سے روایت کرنے والی خود حضرت اسما رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ اگرچہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو ضعیف قراردیا ہے تاہم روایت صحیح ہےاور بعض اوقات راوی حدیث بیان کرتے وقت اپنا نام ظاہر نہیں کرتا ایسا کرنے سے حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ (فتح الباري:431/1) 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ خطابی کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر صرف خالص پانی ہی سے نجاسات کا ازالہ ہو سکتا ہے، پانی کے علاوہ دیگر مائع اور سیال چیزوں سے طہارت حاصل نہیں ہو سکتی، کیونکہ خون حیض کی طرح دیگر نجاستوں کا بھی یہی حکم ہے۔ جیسا کہ جمہور کا موقف ہے۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ پانی کے علاوہ بھی ہر سیال چیز سے نجاست کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ ان کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک حدیث ہے فرماتی ہیں کہ ہمارے ہاں کپڑوں کی فراوانی نہ تھی، صرف ایک ہی جوڑا ہوتا۔ اگر اسے خون حیض لگ جاتا تو اس جگہ کو تھوک سے تر کر کے ناخنوں سے رگڑ دیا جاتا۔ (صحیح البخاري، الحیض، حدیث:312) لیکن یہ حدیث ان حضرات کی دلیل نہیں بن سکتی کہ پانی کے بغیر طہارت حاصل کی جا سکتی ہے، کیونکہ اس میں ہے کہ خون کے اثرات کو تھوک سے زائل کیا جاتا، لیکن نماز کے وقت اسے دھوکر پاک کیا جاتا، پھر اس میں نماز ادا کی جاتی۔ جیسا کہ اس کی وضاحت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک روایت میں ہے۔ (صحیح البخاري، الحیض، حدیث:306) اگرچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے دیگر احتمالات کا بھی ذکر کیا ہے، لیکن وہ سب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے خلاف معلوم ہوتے ہیں، اس لیے ان کے کہنے کے مطابق یہی زیادہ قوی ہے۔ (فتح الباري:535/1) 3۔ دور حاضر میں جنسی لٹریچر عام ہو رہا ہے، مغربی تہذیب و ثقافت کو مسلمانوں پر جبراً مسلط کیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اس قسم کی احادیث کو عام کرنے کی ضرورت ہے جن سے صنف نازک کے دین دنیا اور جسم و روح کو طہارت ملتی ہے۔ ان احادیث میں عورتوں کے پوشیدہ معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور انھیں اسلامی ہدایات دی گئی ہیں۔ انھیں بیان کرنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے، صحابیات اگر ایسے معاملات میں شرم سے کام لیتیں تو عورت کی زندگی کے اہم اور پوشیدہ بے شمار گوشے اسلامی ہدایات سے محروم رہتے۔ 4۔ علامہ عینی نے اس حدیث کے تحت مندرجہ ذیل فوائد ذکر کیے ہیں:۔ (1)۔ خون (حیض) بالا جماع نجس ہے۔ 2۔ کسی چیز کو پاک کرنے میں عدد غسل ضروری نہیں صرف نجاست سے صفائی شرط ہے۔ 3۔ جن کپڑوں میں حیض آیا ہو اگر ان پر خون کا نشان نظر نہ آئے تو ان پر پانی ڈالنے کے بعد ان میں نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ (عمدة القاري:631/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
229
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
227
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
227
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
227
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت اسماء ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا: بتائیے ہم میں سے اگر کسی عورت کو حیض آئے اور کپڑے کو لگ جائے تو وہ کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: ’’اسے کھرچ ڈالے، پھر پانی ڈال کر رگڑے اور دھو ڈالے، پھر اس میں نماز پڑھ لے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ پہلے بچے کے پیشاب کے متعلق بیان تھا کہ اگر دودھ پیتا ہے تو اس کے پیشاب کو دھونے کی ضرورت نہیں صرف اس پر چھینٹے مار لینا ہی کافی ہے۔ اب خون کے متعلق حکم بیان ہوا کہ اسے دھونا ہو گا اس کے بغیر طہارت حاصل نہیں ہو گی۔ اس پر صرف چھینٹے مارنے سے کام نہیں چلے گا رسول اللہ ﷺ سے روایت کرنے والی خود حضرت اسما رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ اگرچہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو ضعیف قراردیا ہے تاہم روایت صحیح ہےاور بعض اوقات راوی حدیث بیان کرتے وقت اپنا نام ظاہر نہیں کرتا ایسا کرنے سے حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ (فتح الباري:431/1) 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ خطابی کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر صرف خالص پانی ہی سے نجاسات کا ازالہ ہو سکتا ہے، پانی کے علاوہ دیگر مائع اور سیال چیزوں سے طہارت حاصل نہیں ہو سکتی، کیونکہ خون حیض کی طرح دیگر نجاستوں کا بھی یہی حکم ہے۔ جیسا کہ جمہور کا موقف ہے۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ پانی کے علاوہ بھی ہر سیال چیز سے نجاست کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ ان کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک حدیث ہے فرماتی ہیں کہ ہمارے ہاں کپڑوں کی فراوانی نہ تھی، صرف ایک ہی جوڑا ہوتا۔ اگر اسے خون حیض لگ جاتا تو اس جگہ کو تھوک سے تر کر کے ناخنوں سے رگڑ دیا جاتا۔ (صحیح البخاري، الحیض، حدیث:312) لیکن یہ حدیث ان حضرات کی دلیل نہیں بن سکتی کہ پانی کے بغیر طہارت حاصل کی جا سکتی ہے، کیونکہ اس میں ہے کہ خون کے اثرات کو تھوک سے زائل کیا جاتا، لیکن نماز کے وقت اسے دھوکر پاک کیا جاتا، پھر اس میں نماز ادا کی جاتی۔ جیسا کہ اس کی وضاحت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک روایت میں ہے۔ (صحیح البخاري، الحیض، حدیث:306) اگرچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے دیگر احتمالات کا بھی ذکر کیا ہے، لیکن وہ سب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے خلاف معلوم ہوتے ہیں، اس لیے ان کے کہنے کے مطابق یہی زیادہ قوی ہے۔ (فتح الباري:535/1) 3۔ دور حاضر میں جنسی لٹریچر عام ہو رہا ہے، مغربی تہذیب و ثقافت کو مسلمانوں پر جبراً مسلط کیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اس قسم کی احادیث کو عام کرنے کی ضرورت ہے جن سے صنف نازک کے دین دنیا اور جسم و روح کو طہارت ملتی ہے۔ ان احادیث میں عورتوں کے پوشیدہ معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور انھیں اسلامی ہدایات دی گئی ہیں۔ انھیں بیان کرنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے، صحابیات اگر ایسے معاملات میں شرم سے کام لیتیں تو عورت کی زندگی کے اہم اور پوشیدہ بے شمار گوشے اسلامی ہدایات سے محروم رہتے۔ 4۔ علامہ عینی نے اس حدیث کے تحت مندرجہ ذیل فوائد ذکر کیے ہیں:۔ (1)۔ خون (حیض) بالا جماع نجس ہے۔ 2۔ کسی چیز کو پاک کرنے میں عدد غسل ضروری نہیں صرف نجاست سے صفائی شرط ہے۔ 3۔ جن کپڑوں میں حیض آیا ہو اگر ان پر خون کا نشان نظر نہ آئے تو ان پر پانی ڈالنے کے بعد ان میں نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ (عمدة القاري:631/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد ابن المثنی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے ہشام کے واسطے سے بیان کیا، ان سے فاطمہ نے اسماء کے واسطے سے، وہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ حضور فرمائیے ہم میں سے کسی عورت کو کپڑے میں حیض آ جائے (تو) وہ کیا کرے، آپ ﷺ نے فرمایا (کہ پہلے) اسے کھرچے، پھر پانی سے رگڑے اور پانی سے دھو ڈالے اور اسی کپڑے میں نماز پڑھ لے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ نجاست دور کرنے کے لیے پانی کا ہونا ضروری ہے۔ دوسری چیزوں سے دھونا درست نہیں۔ اکثر علماء کا یہی فتویٰ ہے۔ حنفیہ نے کہا ہے کہ ہر رقیق چیز جو پاک ہو اس سے دھوسکتے ہیں، جیسے سرکہ وغیرہ، امام بخاری رحمہ اللہ وجمہور کے نزدیک یہ قول صحیح نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Asma': A woman came to the Prophet (ﷺ) and said, "If anyone of us gets menses in her clothes then what should she do?" He replied, "She should (take hold of the soiled place), rub it and put it in the water and rub it in order to remove the traces of blood and then pour water over it. Then she can pray in it."