تشریح:
(1) اس حدیث پر کوئی عنوان نہیں، گویا عنوان سابق سے ایک گونہ تعلق ہے، وہ اس طرح کہ زمین کو کچھ مدت تک بٹائی پر لیا، اب اسے حق ہے کہ اس میں جو چاہے کاشت کرے لیکن جب مدت ختم ہو جائے گی تو مالک زمین کو حق ہو گا کہ وہ اپنے درخت اکھاڑ کر یا فصل اٹھا کر خاص زمین مالک کے حوالے کرے، اس لحاظ سے عنوان سابق "قطع اشجار" سے کچھ مناسبت ہے۔ امام بخاری ؒ کے مزاج کے مطابق اس قدر مناسبت ہی کافی ہے۔ (عمدة القاري:16/9) (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بٹائی پر زمین دینا جائز ہے لیکن زمین کے کسی مخصوص ٹکڑے کی پیداوار لینے کی شرط لگانا جائز نہیں۔ (3) نقدی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینے کا رواج راوی کے بیان کے مطابق اس وقت نہیں تھا لیکن اسی راوی کا بیان ہے کہ درہم و دینار کے عوض زمین ٹھیکے پر دینے میں کوئی حرج نہیں۔ (صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حدیث:2346) اس موضوع پر مکمل بحث آئندہ ہو گی۔