تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں اس امر کی وضاحت نہیں کی کہ اگر مزارعت کا معاملہ کرتے وقت سالوں کا تعین نہ کیا جائے تو یہ معاملہ جائز ہے یا ناجائز کیونکہ اس میں اختلاف ہے۔ بعض ائمہ اسے ناجائز کہتے ہیں۔ ہمارا رجحان یہ ہے کہ ایسا معاملہ جائز ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بھی خیبر کی زمین بٹائی پر دیتے وقت یہود سے مدت کا تعین نہیں کیا تھا، تاہم مالک زمین یہ وضاحت کر دے کہ جب تک میں چاہوں گا، تمہیں زمین دوں گا تاکہ بعد میں جھگڑا پیدا نہ ہو۔ ایسی صورت میں مالک زمین کو اختیار ہو گا کہ قبل از وقت مزارع کو نوٹس دے کر اپنی زمین واپس لے۔ عرف عام میں بھی ایسے ہی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی یہود سے فرمایا تھا کہ جب تک ہم چاہیں گے تمہیں برقرار رکھیں گے۔ (2) بعض علماء کا خیال ہے کہ جب مدت کا تعین نہ کیا جائے تو کم از کم معاملہ ایک سال کے لیے ہو گا۔ اگر سال گزرنے کے بعد مالک نے زمین چھوڑ دینے کا مطالبہ نہ کیا اور نہ مزارع نے ازخود زمین چھوڑی تو یہ دلیل ہے کہ دونوں اپنے سابقہ عقد پر قائم ہیں، اسی طرح کئی سال تک یہ معاملہ چل سکتا ہے۔ واللہ أعلم