تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر کوئی عنوان قائم نہیں کیا کیونکہ یہ عنوانِ سابق کا تتمہ ہے۔ مزارعت کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ پیداوار کے طے شدہ حصے پر کسی کو زمین دی جائے۔ قبل ازیں یہ صورت بیان کی گئی تھی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ زمین کے عوض طے شدہ اجرت لی جائے۔ وہ اس حدیث میں بیان ہوئی ہے، چنانچہ کتب حدیث میں وضاحت ہے کہ امام طاؤس زمین سونے یا چاندی کے عوض اجرت پر دینے کو ناپسند کرتے تھے لیکن تہائی یا چوتھائی پیداوار کے عوض دینے میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے۔ امام مجاہد نے ان سے کہا کہ رافع بن خدیج کے بیٹے کے پاس جاؤ ان سے رافع بن خدیج کی بیان کردہ حدیث سنو۔ انہوں نے کہا: اگر مجھے علم ہو جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے تو میں اسے کیوں عمل میں لاؤں لیکن مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے۔ آگے مذکورہ حدیث کا حوالہ ہے۔ (2) حضرت ابن عباس ؓ کی بیان کردہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس فالتو زمین ہے تو بہتر ہے کہ وہ اپنے بھائی کو یوں ہی کاشت کے لیے مفت دے دے، یعنی یہ فضیلت اور احسان کا طریقہ ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے معاملے کی حقیقت کو خوب سمجھا جس سے اس مسئلے کی وضاحت ہو گئی۔ (فتح الباري:19/5) ایک روایت میں نہی کی علت ایک دوسرے انداز سے بیان ہوئی ہے، حضرت زید بن ثابت ؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ رافع بن خدیج کو معاف فرمائے! میں ان سے زیادہ اس حدیث کو جاننے والا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ دو انصاری رسول اللہ ﷺ کے پاس لڑتے جھگڑتے ہوئے آئے تو آپ نے فرمایا: ’’اگر تمہارا یہی حال ہے تو زمینوں کو کرائے پر مت دیا کرو۔‘‘ حضرت رافع ؓ نے یہ لفظ سن لیا کہ کھیتوں کو کرائے پر مت دیا کرو، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کرائے پر دینے سے منع نہیں کیا بلکہ آپ نے اس بات کو برا خیال کیا کہ اس کی وجہ سے لوگوں میں فساد اور شر پیدا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اخلاقی اعتبار سے آپ نے اسے اچھا خیال نہیں کیا لیکن اس کی قانونی حیثیت وہی ہے کہ زمین کا مالک بااختیار ہے اسے خود کاشت کرے یا بٹائی اور کرائے پر کسی کو دے یا مفت میں کسی کو دے دے۔ (عمدة القاري:25/9) (3) اگر آدمی اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی نہ کر سکے تو اسے اجرت یا بٹائی پر دینے کی قانونی اجازت ہے لیکن اس قانونی اجازت کے باوجود اخلاقی اعتبار سے یہ بات زیادہ پسندیدہ ہے کہ اگر وہ کھیتی باڑی نہیں کر پاتا اور اس کے پاس دوسرا ذریعۂ معاش بھی ہے اور اس کا کوئی دوسرا بھائی بالکل بے سہارا اور بے وسیلہ ہے تو وہ اپنی زمین بغیر کسی معاوضے کے دوسرے بھائی کو دے دے تاکہ وہ اپنی ضروریات اس سے پوری کر سکے، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ کی اس تفسیر سے ارشاد نبوی کی اخلاقی حیثیت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔