تشریح:
(1) مقصد یہ ہے کہ مزارعت کا معاملہ جیسے مسلمانوں میں ہو سکتا ہے اسی طرح مسلمان اور کافر میں بھی ہو سکتا ہے۔ چونکہ حدیث میں صرف یہود کا ذکر تھا، اس لیے عنوان میں انہی کو بیان کیا۔ بہرحال اسلام نے دنیاوی، تمدنی، معاشرتی اور اقتصادی معاملات میں تنگ نظری سے کام نہیں لیا بلکہ ایسے معاملات میں صرف انسانی مفاد کے پیش نظر وسعت نظری کا مظاہرہ کیا ہے۔ (2) اقتصادی معاملات میں مسلم اور غیر مسلم کے لیے کوئی قدغن نہیں، البتہ عدل و انصاف کا مطالبہ مسلم اور کافر دونوں سے ہے۔ عدل و انصاف ہر جگہ ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ دور حاضر میں مسلمان زمین کے ہر حصے میں پھیلے ہوئے ہیں، بسا اوقات غیر مسلم لوگوں سے کاروباری تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔ اسلام نے ایسے معاملات میں مذہبی تعصب سے کام نہیں لیا۔