قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المُزَارَعَةِ (بَابُ إِذَا زَرَعَ بِمَالِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ، وَكَانَ فِي ذَلِكَ صَلاَحٌ لَهُمْ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

2333. حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَمَا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَمْشُونَ أَخَذَهُمْ الْمَطَرُ فَأَوَوْا إِلَى غَارٍ فِي جَبَلٍ فَانْحَطَّتْ عَلَى فَمِ غَارِهِمْ صَخْرَةٌ مِنْ الْجَبَلِ فَانْطَبَقَتْ عَلَيْهِمْ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ انْظُرُوا أَعْمَالًا عَمِلْتُمُوهَا صَالِحَةً لِلَّهِ فَادْعُوا اللَّهَ بِهَا لَعَلَّهُ يُفَرِّجُهَا عَنْكُمْ قَالَ أَحَدُهُمْ اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ لِي وَالِدَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ وَلِي صِبْيَةٌ صِغَارٌ كُنْتُ أَرْعَى عَلَيْهِمْ فَإِذَا رُحْتُ عَلَيْهِمْ حَلَبْتُ فَبَدَأْتُ بِوَالِدَيَّ أَسْقِيهِمَا قَبْلَ بَنِيَّ وَإِنِّي اسْتَأْخَرْتُ ذَاتَ يَوْمٍ فَلَمْ آتِ حَتَّى أَمْسَيْتُ فَوَجَدْتُهُمَا نَامَا فَحَلَبْتُ كَمَا كُنْتُ أَحْلُبُ فَقُمْتُ عِنْدَ رُءُوسِهِمَا أَكْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا وَأَكْرَهُ أَنْ أَسْقِيَ الصِّبْيَةَ وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَيَّ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُهُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ لَنَا فَرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ فَفَرَجَ اللَّهُ فَرَأَوْا السَّمَاءَ وَقَالَ الْآخَرُ اللَّهُمَّ إِنَّهَا كَانَتْ لِي بِنْتُ عَمٍّ أَحْبَبْتُهَا كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَاءَ فَطَلَبْتُ مِنْهَا فَأَبَتْ عَلَيَّ حَتَّى أَتَيْتُهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ فَبَغَيْتُ حَتَّى جَمَعْتُهَا فَلَمَّا وَقَعْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا قَالَتْ يَا عَبْدَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَفْتَحْ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ فَقُمْتُ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُهُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا فَرْجَةً فَفَرَجَ وَقَالَ الثَّالِثُ اللَّهُمَّ إِنِّي اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقِ أَرُزٍّ فَلَمَّا قَضَى عَمَلَهُ قَالَ أَعْطِنِي حَقِّي فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ فَرَغِبَ عَنْهُ فَلَمْ أَزَلْ أَزْرَعُهُ حَتَّى جَمَعْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيَهَا فَجَاءَنِي فَقَالَ اتَّقِ اللَّهَ فَقُلْتُ اذْهَبْ إِلَى ذَلِكَ الْبَقَرِ وَرُعَاتِهَا فَخُذْ فَقَالَ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَسْتَهْزِئْ بِي فَقُلْتُ إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ بِكَ فَخُذْ فَأَخَذَهُ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ مَا بَقِيَ فَفَرَجَ اللَّهُ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ فَسَعَيْتُ

مترجم:

2333.

حضرت عبداللہ بن عمر  ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’تین آدمی سفر میں جارہے تھے کہ انھیں بارش نے آلیا۔ انھوں نے ایک پہاڑ کی غار میں پناہ لی۔ غار کے منہ پر پہاڑ کے اوپر سے ایک پتھر آگرا جس سے غار کا منہ بند ہوگیا۔ انھوں نے ایک دوسرے سے کہا: تم ا پنے اپنے اعمال پر نظر کرو کہ کس نے کیا کیا نیک عمل خالص اللہ کی رضا کے لیے کیا ہے، پھر اس کے وسیلے سے اللہ سے دعا کرو شاید اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو تم سے دور کردے، چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: اےاللہ! میرے بوڑھے والدین اور چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ میں ان کے لیے بکریاں چرایا کرتا تھا۔ جب میں لوٹتا تو دودھ دوہتا اور اپنے بچوں سے پہلے اپنے والدین کو دودھ پلاتا۔ ایک دن مجھے دیر ہوگئی اور رات گئے تک گھر نہ آیا۔ جب آیا تو دیکھا کہ میرے والدین سو گئے ہیں۔ میں نے دودھ دوہا جیسا کہ میں دوہتا تھا اور اس لیے ان کے سرہانے کھڑا رہا لیکن انھیں بیدار کرنا مجھے اچھا نہ لگا اور یہ بھی مجھے مناسب معلوم نہ ہواکہ(والدین سے پہلے) بچوں کو دودھ پلادوں۔ حالانکہ وہ میرے پاؤں کے پاس بلبلا رہے تھے۔ یہاں تک کہ اسی حالت میں فجر ہوگئی۔ (اے میرے رب!) اگر تو جانتاہے کہ میں نے یہ عمل تیری رضا کے لیے کیا ہے تو ہم سے یہ پتھر دور کردے کہ ہمیں آسمان نظر آئے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کچھ پتھر ہٹا دیا جس سے انھوں نے آسمان دیکھا۔ دوسرے نے عرض کیا: اے اللہ!میری ایک چچازاد بہن تھی۔ میں اس سے بہت محبت کرتاتھا جیسا کہ مرد عورتوں سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔ میں نے اس سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو اس نے انکار کردیا الا یہ کہ میں سودینار اسے دوں، چنانچہ میں نے کوشش اور محنت کی یہاں تک کہ سودینار جمع کرلیے۔ جب میں بُرے کام کے لیے اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھا تو اس نے کہا: اللہ کے بندے!اللہ سے ڈر اور حق کےبغیر اس مہر کو نہ توڑ، تو میں اٹھ کھڑا ہوا۔ (اے اللہ!) اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل تیری رضا کے لیے کیا ہے تو ہم سے یہ پتھر ہٹا دے۔ وہ پتھر تھوڑا سا مزید اپنی جگہ سے ہٹ گیا۔ تیسرے شخص نے کہا: اے اللہ! میں نے ایک مزدور چاولوں کے ایک فرق کے عوض مزدوری پر رکھا تھا۔ جب اس نے اپنا کام کرلیا تو کہا: مجھے میری اجرت دو۔ میں نے اسے اجرت پیش کی تو اس نے بے رغبتی سے کام لیا اور چلا گیا۔ میں ان چاولوں کو کاشت کرتا رہا، یہاں تک کہ میں نے اس سے گائیں خریدیں اور چر اہے بھی رکھ لیے۔ آخر کار وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ سے ڈر۔ میں نے کہا: جاؤ وہ گائیں اور چرواہے سب تمہارے ہیں۔ انھیں لے جاؤ۔ اس نے دوبارہ کہا: اللہ سے ڈر اور میرے ساتھ مذاق نہ کر۔ میں نے کہا: میں تیرے ساتھ مذاق نہیں کررہا، ان کولے جاؤ تو وہ لے گیا۔ (اے اللہ!) اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل تیری خوشنودی کے لیے کیا ہے تو باقی ماندہ پتھربھی ہٹادے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وہ پتھر ہٹا دیا۔‘‘ ابو عبداللہ (امام بخاری ؒ) نے کہا: اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے حضرت نافع سے(فبغيت کی جگہ) (فسعيت) کے الفاظ روایت کیے ہیں۔