تشریح:
(1) حضرت عمر ؓ کے دور حکومت میں جب ایران اور عراق کے علاقے فتح ہوئے تو انہوں نے وہاں کی زمینیں مجاہدین میں تقسیم نہ کیں بلکہ وہاں کے اہل ذمہ کے پاس بطور مزارعت رہنے دیں، البتہ ان کی پیداوار سے مسلمان مستفید ہوتے تھے۔ ان زمینوں کی حکومت کی ملکیت رکھا کیونکہ اگر مفتوحہ علاقوں کی زمین بانٹ دی جاتی تو بعد میں آنے والے لوگ کہاں جاتے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح تک تمام مفتوحہ زمینیں مجاہدین میں تقسیم کیں تو حضرت عمر ؓ نے شام کی زمین کو بحق سرکار کیوں روکا؟ امام بخاری ؒ نے ترجمہ الباب میں حضرت عمر ؓ کی حدیث لا کر اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ خلیفہ کو حق ہے کہ مصلحت کے پیش نظر اس میں ردوبدل کرے جس طرح رسول اکرم ﷺ نے حضرت عمر ؓ کے صدقے کو مسلمانوں کی مصلحت کے لیے بحق سرکار وقف کیا اسی طرح حضرت عمر ؓ نے شام کی زمینیں مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر مزارعت پر دے دیں۔ (3) جب وقف زمینیں مزارعت پر دی جا سکتی ہیں تو مملوکہ زمینیں بھی دی جا سکتیں ہیں کیونکہ ان دونوں کا ایک ہی معاملہ ہے۔