قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المُزَارَعَةِ (بَابُ أَوْقَافِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺوَأَرْضِ الخَرَاجِ وَمُزَارَعَتِهِمْ، وَمُعَامَلَتِهِمْ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِعُمَرَ: «تَصَدَّقْ بِأَصْلِهِ لاَ يُبَاعُ، وَلَكِنْ يُنْفَقُ ثَمَرُهُ» فَتَصَدَّقَ بِهِ

2334. حَدَّثَنَا صَدَقَةُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ مَالِكٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَوْلَا آخِرُ الْمُسْلِمِينَ مَا فَتَحْتُ قَرْيَةً إِلَّا قَسَمْتُهَا بَيْنَ أَهْلِهَا كَمَا قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور نبی کریم ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا تھا ( جب وہ اپنا ایک کھجور کا باغ للہ وقف کر رہے تھے ) اصل زمین کو وقف کردے، اس کو کوئی بیچ نہ سکے، البتہ اس کا پھل خرچ کیا جاتا رہے چنانچہ عمر ؓ نے ایسا ہی کیا۔ابن بطال نے کہا اس باب کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ آنحضرت ﷺکے بعد بھی آپ ﷺکے اوقاف میں اسی طرح مزارعت کرتے رہے جیسے خیبر کے یہودی کیا کرتے تھے۔ تشریح : یہ ایک حدیث کا ٹکڑا ہے جس کو امام بخاری نے کتاب الوصایا میں نکالا کہ حضرت عمر ؓنے اپنا ایک باغ جس کو ثمغ کہتے تھے، صدقہ کر دیا اور آنحضرتﷺسے عرض کیا، میں نے کچھ مال کمایا ہے، میں چاہتا ہوںکہ اس کو صدقہ کر وں۔ وہ مال بہت عمدہ ہے۔ آپ نے فرمایا اس کی اصل صدقہ کر دے نہ وہ بیع ہو سکے نہ ہبہ، نہ اس میں ترکہ ہو بلکہ اس کا میوہ خیرات ہوا کرے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اسی طرح اللہ کی راہ میں یعنی مجاہدین اور مساکین اور غلاموں کے آزاد کرانے اور مہمانوں اور مسافروں اور ناطے والوں کے لیے صدقہ کر دیا۔ اور یہ اجازت دی کہ جو اس کا متولی ہو وہ اس میں سے دستور کے موافق کھائے۔ اپنے دوستوں کو کھلائے، لیکن اس میں سے دولت جمع نہ کرے۔ باب میں اور حدیث باب میں بنجر زمین کی آباد کاری کا ذکر ہے۔ طحاوی نے کہا بنجر وہ زمین ہے جو کسی کی ملک نہ ہو، نہ شہر اور نہ بستی کے متعلق ہو۔ آج کے حالات کے تحت اس تعریف سے کوئی زمین ایسی بنجر نہیں رہتی جو اس باب یا حدیث کے ذیل آسکے۔ اس لیے کہ آج زمین کا ایک ایک چپہ خواہ وہ بنجر در بنجر ہی کیوں نہ ہو وہ حکومت کی ملکیت میں داخل ہے۔ یا کسی گاؤں بستی سے متعلق ہے تو اس کی ملکیت میں شامل ہے۔ بہر صورت مفہوم حدیث اور باب اپنی جگہ بالکل آج بھی جاری ہے کہ بنجر زمینوں کے آباد کرنے والوں کا حق ہے۔ اور موجودہ حکومت یا اہل قریہ کا فرض ہے کہ وہ زمین اسی آباد کرنے والے کے نام منتقل کردیں۔ اس سے زمین کی آباد کاری کے لیے ہمت افزائی مقصود ہے۔ اور یہ ہر زمانہ میں انسانیت کا ایک اہم وسیلہ رہا ہے۔ جس قدر زمین زیادہ آباد ہوگی بنی نوع انسان کو اس سے زیادہ نفع پہنچے گا۔ لفظ ”ارضا مواتا“ اس بنجر زمین پر بولا جاتا ہے ہے جس میں کھیتی نہ ہوتی ہو۔ اس کے آباد کرنے کا مطلب یہ کہ اس میں پانی لایا جائے۔ پھر اس میں باغ لگائے جائیں یا کھیتی کی جائے تو اس کا حق ملکیت اس کے آباد کرنے والے کے لیے ثابت ہوجاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ حکومت یا اہل بستی اگر ایسی زمین کو اس سے چھین کر کسی اور کو دیں گے تو وہ عنداللہ ظالم ٹھہریں گے۔

2334.

حضرت عمر  ؓ نے فرمایا: اگر مجھے بعد میں آنے والے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو میں جو بھی بستی فتح کرتا اسے وہاں کے مجاہدین میں تقسیم کردیتا جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے خیبر (فتح کرنے کے بعد اسے) کیا تھا۔