Sahi-Bukhari
4. Ablutions (Wudu')
66. Chapter: The washing out of semen with water and rubbing it off (when it is dry) and the washing out of what comes out of women (i.e., discharge)
باب: منی کا دھونا اور اس کا کھرچنا ضروری ہے، نیز جو چیز عورت سے لگ جائے اس کا دھونا بھی ضروری ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The washing out of semen with water and rubbing it off (when it is dry) and the washing out of what comes out of women (i.e., discharge))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
235.
حضرت سلیمان بن یسار سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا: جس کپڑے کو منی لگ جائے تو (کیسے پاک کیا جائے؟) حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے منی دھو ڈالتی، پھر آپ نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے اور دھونے کے نشان، یعنی پانی کے دھبے کپڑے پر باقی رہ جاتے۔
تشریح:
1۔ ان احادیث کے پیش نظر امام بخاری ؒ کا رجحان نجاست منی کی طرف معلوم ہوتا ہے، کیونکہ آپ نے ان احادیث پر غسل منی کا عنوان قائم کیا ہے۔ جیسے قبل ازیں غسل بول اور غسل مذی کا عنوان قائم کر چکے ہیں۔ آئندہ ایک عنوان غسل جنابت ہے۔ امام بخاری ؒ جس چیز کے متعلق غسل کا عنوان قائم کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک نجس ہوتی ہے۔ آپ نے اس عنوان میں فرک منی کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ منی سے تطہیر فرک (کھرچنے) سے بھی ہو جاتی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں طہارت کی مختلف صورتیں ہیں اور اس کے حصول کے بھی متعدد طریقے ہیں، کیونکہ جن چیزوں سے نجاست متعلق ہو جاتی ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں، ان کے متعلق یہ کہنا کہ دھونے کے علاوہ دیگر تمام طریقے طہارت کی علامت لازمہ ہیں درست نہیں۔ طہارت کی مختلف صورتیں حسب ذیل ہیں: * استنجا کے لیے ڈھیلوں کا استعمال جائز ہے، پانی سے طہارت حاصل کرنا ضروری نہیں۔ * جوتوں کی نجاست لگی ہو تو انھیں پاک زمین پر رگڑ دیا جائے تو پاک ہو جائیں گے، انھیں دھونے کی ضرورت نہیں۔ * جن چیزوں میں نجاست اندر داخل نہ ہو، جیسے شیشہ وغیرہ ان کی طہارت صرف مسح سے ہو جاتی ہے۔ * زمین نجاست آلود ہو تو خشک ہونے پر خود بخود پاک ہو جائے گی۔ بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکنا ہی کافی ہے، اسے بھی دھونے کی ضرورت نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ شریعت میں طہارت حاصل کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ اسی طرح اگر کپڑے کو منی لگ جائے تو اس کی طہارت کے دو طریقے ہیں: اسے دھودیا جائے یا اسے کھرچ ڈالا جائے۔ اب اگر فرک (رگڑنے) ہی کو دلیل طہارت بنا لیا جائے تو ایسا ہوگا کہ کسی شخص کا موزہ نجاست آلود ہوجائے اور وہ اسے زمین پر رگڑ کر پاک کرلے تو کہا جائے کہ اگر اس کا زمین پر رگڑنا دلیل طہارت ہے تو اس نجاست کے متعلق کیا حکم ہے جو اسے لگی ہوئی ہے اگر فرک منی طہارت منی کے لیے دلیل ہے تو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں کم ازکم ایک مرتبہ بیان جواز کے طور پر آلودہ کپڑوں میں نماز پڑھنے کا ثبوت ضرور ملنا چاہیے۔ ہاں مفروک کپڑے میں نماز پڑھنا ثابت ہے، کیونکہ فرک بھی منی سے طہارت حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے جس کاذکر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عنوان میں کیا ہے۔ 2۔ منی نجس ہے، اس کی نجاست کے دلائل حسب ذیل ہیں:۔ * قرآن کریم میں اسے ﴿مَّاءٍ مَّهِينٍ﴾ حقیر پانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (المرسلات77۔20) کسی پاکیزہ چیز کے متعلق یہ انداز اختیار نہیں کیا جاتا. * جب حدث اصغر کا سبب پیشاب ناپاک ہے تو حدث اکبر کا سبب منی بطریق اولیٰ ناپاک ہونا چاہیے۔ * صحیح احادیث سے ازالہ منی کا ثبوت غسل، فرک، مسح، حت اور حک کے الفاظ سے ملتا ہے جو اس کی نجاست کے لیے واضح دلیل ہے۔ * حضرت معاویہ ؓ نے حضرت حفصہ ؓ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ جماع کے کپڑوں میں نماز پڑھ لیتے تھے تو آپ نے فرمایا کہ اگر ان میں نجاست کا اثر نہ دیکھتے تو ان میں نماز پڑھ لیتے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 366) اس میں دو طرح سے منی کی نجاست پر دلیل لی گئی ہے:۔ * اسے اذی سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ حیض کو اذی کہا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ منی ناپاک ہے۔ * رسول اللہ ﷺ کا اس کی موجود گی میں نماز نہ پڑھنا بھی اس کے ناپاک ہونے کی دلیل ہے۔ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ کپڑے یا جسم پر منی کو بدستورباقی رکھنے کا ثبوت ہوتا۔ حدیث الباب کے الفاظ (كُنْتُ أَغْسِلُ الْجَنَابَةَ) بھی نجاست منی کی دلیل ہیں۔ اس پر علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے نجاست منی پر استدلال صحیح نہیں کیونکہ غسل منی نجاست کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اس کی گزر گاہ نجس ہے یا بوجہ اختلاط رطوبت فرج ہے۔ (شرح الكرمانی: 82/2) علامہ عینی کہتے ہیں کہ مستقر منی اور مستقر بول دونوں الگ الگ ہیں۔ اسی طرح ان کے مخرج بھی جدا جدا ہیں۔ لہٰذا گزرگاہ کے نجس ہونے کی بات بے دلیل ہے اور نجاست رطوبت فرج کا مسئلہ بھی اختلافی ہے۔ اس کی وجہ سے بھی استدلال مذکورہ کو کمزور نہیں کہہ سکتے۔ (عمدة القاري: 639/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
232
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
230
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
230
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
230
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت سلیمان بن یسار سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا: جس کپڑے کو منی لگ جائے تو (کیسے پاک کیا جائے؟) حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے منی دھو ڈالتی، پھر آپ نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے اور دھونے کے نشان، یعنی پانی کے دھبے کپڑے پر باقی رہ جاتے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ان احادیث کے پیش نظر امام بخاری ؒ کا رجحان نجاست منی کی طرف معلوم ہوتا ہے، کیونکہ آپ نے ان احادیث پر غسل منی کا عنوان قائم کیا ہے۔ جیسے قبل ازیں غسل بول اور غسل مذی کا عنوان قائم کر چکے ہیں۔ آئندہ ایک عنوان غسل جنابت ہے۔ امام بخاری ؒ جس چیز کے متعلق غسل کا عنوان قائم کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک نجس ہوتی ہے۔ آپ نے اس عنوان میں فرک منی کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ منی سے تطہیر فرک (کھرچنے) سے بھی ہو جاتی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں طہارت کی مختلف صورتیں ہیں اور اس کے حصول کے بھی متعدد طریقے ہیں، کیونکہ جن چیزوں سے نجاست متعلق ہو جاتی ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں، ان کے متعلق یہ کہنا کہ دھونے کے علاوہ دیگر تمام طریقے طہارت کی علامت لازمہ ہیں درست نہیں۔ طہارت کی مختلف صورتیں حسب ذیل ہیں: * استنجا کے لیے ڈھیلوں کا استعمال جائز ہے، پانی سے طہارت حاصل کرنا ضروری نہیں۔ * جوتوں کی نجاست لگی ہو تو انھیں پاک زمین پر رگڑ دیا جائے تو پاک ہو جائیں گے، انھیں دھونے کی ضرورت نہیں۔ * جن چیزوں میں نجاست اندر داخل نہ ہو، جیسے شیشہ وغیرہ ان کی طہارت صرف مسح سے ہو جاتی ہے۔ * زمین نجاست آلود ہو تو خشک ہونے پر خود بخود پاک ہو جائے گی۔ بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکنا ہی کافی ہے، اسے بھی دھونے کی ضرورت نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ شریعت میں طہارت حاصل کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ اسی طرح اگر کپڑے کو منی لگ جائے تو اس کی طہارت کے دو طریقے ہیں: اسے دھودیا جائے یا اسے کھرچ ڈالا جائے۔ اب اگر فرک (رگڑنے) ہی کو دلیل طہارت بنا لیا جائے تو ایسا ہوگا کہ کسی شخص کا موزہ نجاست آلود ہوجائے اور وہ اسے زمین پر رگڑ کر پاک کرلے تو کہا جائے کہ اگر اس کا زمین پر رگڑنا دلیل طہارت ہے تو اس نجاست کے متعلق کیا حکم ہے جو اسے لگی ہوئی ہے اگر فرک منی طہارت منی کے لیے دلیل ہے تو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں کم ازکم ایک مرتبہ بیان جواز کے طور پر آلودہ کپڑوں میں نماز پڑھنے کا ثبوت ضرور ملنا چاہیے۔ ہاں مفروک کپڑے میں نماز پڑھنا ثابت ہے، کیونکہ فرک بھی منی سے طہارت حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے جس کاذکر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عنوان میں کیا ہے۔ 2۔ منی نجس ہے، اس کی نجاست کے دلائل حسب ذیل ہیں:۔ * قرآن کریم میں اسے ﴿مَّاءٍ مَّهِينٍ﴾ حقیر پانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (المرسلات77۔20) کسی پاکیزہ چیز کے متعلق یہ انداز اختیار نہیں کیا جاتا. * جب حدث اصغر کا سبب پیشاب ناپاک ہے تو حدث اکبر کا سبب منی بطریق اولیٰ ناپاک ہونا چاہیے۔ * صحیح احادیث سے ازالہ منی کا ثبوت غسل، فرک، مسح، حت اور حک کے الفاظ سے ملتا ہے جو اس کی نجاست کے لیے واضح دلیل ہے۔ * حضرت معاویہ ؓ نے حضرت حفصہ ؓ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ جماع کے کپڑوں میں نماز پڑھ لیتے تھے تو آپ نے فرمایا کہ اگر ان میں نجاست کا اثر نہ دیکھتے تو ان میں نماز پڑھ لیتے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 366) اس میں دو طرح سے منی کی نجاست پر دلیل لی گئی ہے:۔ * اسے اذی سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ حیض کو اذی کہا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ منی ناپاک ہے۔ * رسول اللہ ﷺ کا اس کی موجود گی میں نماز نہ پڑھنا بھی اس کے ناپاک ہونے کی دلیل ہے۔ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ کپڑے یا جسم پر منی کو بدستورباقی رکھنے کا ثبوت ہوتا۔ حدیث الباب کے الفاظ (كُنْتُ أَغْسِلُ الْجَنَابَةَ) بھی نجاست منی کی دلیل ہیں۔ اس پر علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے نجاست منی پر استدلال صحیح نہیں کیونکہ غسل منی نجاست کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اس کی گزر گاہ نجس ہے یا بوجہ اختلاط رطوبت فرج ہے۔ (شرح الكرمانی: 82/2) علامہ عینی کہتے ہیں کہ مستقر منی اور مستقر بول دونوں الگ الگ ہیں۔ اسی طرح ان کے مخرج بھی جدا جدا ہیں۔ لہٰذا گزرگاہ کے نجس ہونے کی بات بے دلیل ہے اور نجاست رطوبت فرج کا مسئلہ بھی اختلافی ہے۔ اس کی وجہ سے بھی استدلال مذکورہ کو کمزور نہیں کہہ سکتے۔ (عمدة القاري: 639/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید نے، کہا ہم سے عمرو نے سلیمان سے روایت کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے سنا (دوسری سند یہ ہے) ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے، کہا ہم سے عمرو بن میمون نے سلیمان بن یسار کے واسطے سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے اس منی کے بارہ میں پوچھا جو کپڑے کو لگ جائے۔ تو انھوں نے فرمایا کہ میں منی کو رسول کریم ﷺ کے کپڑے سے دھو ڈالتی تھی پھر آپ نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے اور دھونے کا نشان (یعنی) پانی کے دھبے آپ ﷺ کے کپڑے میں باقی ہوتے۔
حدیث حاشیہ:
باب میں عورت کی شرمگاہ سے تری وغیرہ لگ جانے اور اس کے دھونے کا بھی ذکر تھا۔ مگر احادیث واردہ میں صراحتاً عورت کی تری کا ذکر نہیں ہے۔ ہاں حدیث نمبر 227 میں کپڑے پر مطلقاً منی لگ جانے کا ذکر ہے۔ خواہ وہ مرد کی ہو یا عورت کی۔ اسی سے باب کی مطابقت ہوتی ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ منی کو پہلے کھرچنا چاہیے پھر پانی سے صاف کرڈالنا چاہئیے، پھر بھی اگرکپڑے پر کچھ نشان دھبے باقی رہ جائیں توان میں نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ کیونکہ کپڑا پاک صاف ہوچکا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sulaiman bin Yasar (RA): I asked 'Aisha (RA) about the clothes soiled with semen. She replied, "I used to wash it off the clothes of Allah's Apostle (ﷺ) and he would go for the prayer while water spots were still visible.”