تشریح:
(1) امام بخاری ؒ اس روایت کو شجرکاری کے باب میں لائے ہیں کیونکہ اس روایت میں انصار کے کام میں شجرکاری بھی داخل ہے۔ چونکہ انصار نخلستان کے علاقے میں آباد تھے، اس لیے باغات کی دیکھ بھال کا کام بھی عمل اموال میں شامل ہے۔ یہی عنوان کا مقصد ہے۔ (2) حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان حدیث کے ضمن میں جن آیات کا حوالہ دیا ہے وہ حسب ذیل ہیں: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ﴿١٥٩﴾ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَـٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿١٦٠﴾) ’’بےشک جو لوگ ہماری نزل کردہ بینات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، اس کے بعد کہ ہم نے لوگوں کے لیے ان کو کتاب میں کھول کر بیان کر دیا ہے، وہی لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں، مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ اور اپنی اصلاح کر لی اور (چھپائی ہوئی آیات کی) وضاحت کر دی تو میں ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہوں اور میں بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا انتہائی مہربان ہوں۔‘‘ (البقرة: 160،159:2) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ عمل اموال سے مراد انصار کا کھیتی باڑی اور شجرکاری میں مصروف ہونا ہے، اس طرح یہ حدیث عنوان کے مطابق ہو جاتی ہے۔ (فتح الباري:36/5)