باب: اگر منی یا کوئی اور نجاست (مثلاً حیض کا خون) دھوئے اور (پھر) اس کا اثر نہ جائے (تو کیا حکم ہے؟)۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: If the (traces of) Janaba (semen) or other spots are not removed completely on washing)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
236.
عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ میں نے حضرت سلیمان بن یسار سے منی آلود کپڑے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا: حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی دھو ڈالتی تھی، پھر آپ نماز کے لیے تشریف لے جاتے جبکہ دھونے کا نشان، یعنی پانی کے دھبے کپڑے پر باقی رہ جاتے۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر ناپاک منی کو اچھی طرح دھو دیا جائے، اس کے باوجود اس کا دھبا زائل نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ اسے کسی خارجی چیز سے دھونے کی ضرورت نہیں۔ ان دھبوں کو زائل کرنا محض تکلف ہے۔ اسی طرح کپڑے کو خشک کرنے کی بھی ضرورت نہیں اگر پانی کے نشانات کپڑے پر نظر آتے ہیں تو چنداں حرج نہیں۔ شارحین کا اختلاف ہے کہ دھبوں سے مراد پانی کے دھبے ہیں یا منی کے؟ دراصل روایت میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں:۔ * پانی کے دھبے کپڑے میں موجود ہوتے تھے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:229) * دھونے کے دھبے کپڑے میں موجود ہوتے تھے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:230) * پھر میں کپڑے پر دھبے دیکھتی تھی۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:232) ان آخری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ دھونے کے بعد اس کپڑے میں منی کے دھبے نظر آتے تھے۔ پہلے اور دوسرے الفاظ سے پانی کے دھبے معلوم ہوتے ہیں، بہر حال دھونے کے بعد دھبوں کا بقا نقصان دہ نہیں۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے جنابت کے ساتھ غیرھا کا ذکر بھی کیا ہے، لیکن حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔ البتہ جنابت کا حکم معلوم کر لینے کے بعد دیگر نجاستوں کو اس پرقیاس کیا جا سکتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت خولہ بنت یسار ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول الله ﷺ ! میرے پاس صرف ایک کپڑا ہے حالت حیض میں وہ ملوث ہو جاتا ہے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا :’’جب تم پاک ہو جایا کرو تو اسے دھولیا کرو۔‘‘ عرض کیا :اگر اس سے خون کا دھبا نہ جائے تو؟آپ نے فرمایا :’’پانی سے دھولینا کافی ہے۔ اس کے بعد اگر نشان رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔‘‘ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:365)غیرھا کا لفظ بڑھانے سے یہ مقصد بھی ہو سکتا ہے کہ یہ حکم منی سے مخصوص نہیں دیگر نجاستوں کا بھی یہی حکم ہے۔ اگر یہ معنی لیا جائے تو حدیث الباب میں اسے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
233
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
231
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
231
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
231
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ میں نے حضرت سلیمان بن یسار سے منی آلود کپڑے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا: حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی دھو ڈالتی تھی، پھر آپ نماز کے لیے تشریف لے جاتے جبکہ دھونے کا نشان، یعنی پانی کے دھبے کپڑے پر باقی رہ جاتے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر ناپاک منی کو اچھی طرح دھو دیا جائے، اس کے باوجود اس کا دھبا زائل نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ اسے کسی خارجی چیز سے دھونے کی ضرورت نہیں۔ ان دھبوں کو زائل کرنا محض تکلف ہے۔ اسی طرح کپڑے کو خشک کرنے کی بھی ضرورت نہیں اگر پانی کے نشانات کپڑے پر نظر آتے ہیں تو چنداں حرج نہیں۔ شارحین کا اختلاف ہے کہ دھبوں سے مراد پانی کے دھبے ہیں یا منی کے؟ دراصل روایت میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں:۔ * پانی کے دھبے کپڑے میں موجود ہوتے تھے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:229) * دھونے کے دھبے کپڑے میں موجود ہوتے تھے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:230) * پھر میں کپڑے پر دھبے دیکھتی تھی۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:232) ان آخری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ دھونے کے بعد اس کپڑے میں منی کے دھبے نظر آتے تھے۔ پہلے اور دوسرے الفاظ سے پانی کے دھبے معلوم ہوتے ہیں، بہر حال دھونے کے بعد دھبوں کا بقا نقصان دہ نہیں۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے جنابت کے ساتھ غیرھا کا ذکر بھی کیا ہے، لیکن حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔ البتہ جنابت کا حکم معلوم کر لینے کے بعد دیگر نجاستوں کو اس پرقیاس کیا جا سکتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت خولہ بنت یسار ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول الله ﷺ ! میرے پاس صرف ایک کپڑا ہے حالت حیض میں وہ ملوث ہو جاتا ہے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا :’’جب تم پاک ہو جایا کرو تو اسے دھولیا کرو۔‘‘ عرض کیا :اگر اس سے خون کا دھبا نہ جائے تو؟آپ نے فرمایا :’’پانی سے دھولینا کافی ہے۔ اس کے بعد اگر نشان رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔‘‘ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:365)غیرھا کا لفظ بڑھانے سے یہ مقصد بھی ہو سکتا ہے کہ یہ حکم منی سے مخصوص نہیں دیگر نجاستوں کا بھی یہی حکم ہے۔ اگر یہ معنی لیا جائے تو حدیث الباب میں اسے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عمرو بن میمون نے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کپڑے کے متعلق جس میں جنابت (ناپاکی) کا اثر آ گیا ہو، سلیمان بن یسار سے سنا وہ کہتے تھے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میں رسول کریم ﷺ کے کپڑے سے منی کو دھو ڈالتی تھی، پھر آپ نماز کے لیے باہر نکلتے اور دھونے کا نشان یعنی پانی کے دھبے کپڑے میں ہوتے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پاک کرنے کے بعد پانی کے دھبے اگرکپڑے پر باقی رہیں توکچھ حرج نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr bin Maimun (RA): I heard Sulaiman bin Yasar talking about the clothes soiled with semen. He said that 'Aisha (RA) had said, "I used to wash it off the clothes of Allah's Apostle (ﷺ) and he would go for the prayers while water spots were still visible on them.