تشریح:
1۔ سنن نسائی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ چوہیا جمے ہوئے گھی میں گرجائے۔ (سنن نسائي، الفرع والعتیرة، حديث:4263) صحیح بخاری کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ وہ چوہیا گھی میں گرنے کے بعد اس میں مر جائے۔ (صحیح البخاري، الذبائح، حدیث:5538) سنن ابی داود میں مزید وضاحت ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:’’اگرچوہا گھر میں گرجائے، اگرگھی جما ہوا ہے تو چوہے اور اس کے اردگرد کے گھی کو پھینک دواور اگرگھی سیال ہے تو اس کے پاس مت جاؤ۔‘‘ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث:3842) حدیث بخاری سے صرف جامد کا مسئلہ معلوم ہوتا ہے، سیال کا نہیں کیونکہ اگر سیال میں نجاست گرے گی تو اس کے آس پاس کے حصے کا تعین کرنا اور پھینکنا ممکن ہی نہیں، کیونکہ جس طرف سے بھی اسے الٹنا چاہیں گے اس کی جگہ فوراً دوسرے حصے پیچھے سے آجائیں گے اور وہ بھی اردگرد کے حصے بن جائیں گے یہاں تک کہ پورے کو پھینکنا پڑے گا اور القائے ماحول (اردگرد کے پھینکنے) کا حکم صرف جامد میں جاری ہو سکتا ہے، سیال اشیاء میں یہ حکم جاری نہیں ہوسکتا۔ اگرچہ حدیث بخاری اپنے الفاظ اور منطوق کے لحاظ سے سیال اور جامد کے فرق پر دلالت نہیں کرتی، تاہم اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے جامد اور سیال کا فرق بتلارہی ہے۔ حدیث بخاری کے مفہوم مذکور کی تائید ابوداؤد کی حدیث ابی ہریرہ ؓ (نمبر3842) اور سنن نسائی کی حدیث میمونہ (نمبر 4264) کے منطوق سے بھی ہوتی ہے۔
2۔ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ ایک عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک جامد اورسیال کا کوئی فرق نہیں، چنانچہ کتاب الذبائح والصید میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کرتے ہیں: (باب إذا وقعت الفأرة في السمن الجامد أو الذائب)’’جب جامد یا سیال گھی میں چوہیا گرجائے۔‘‘ اس کے تحت انھوں نے حدیث میمونہ ذکر کی ہے، نیز انھوں نے امام زہری ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان سے سوال ہواکہ اگر کوئی بھی جاندار(چوہیا وغیرہ) گھی یاتیل میں گرجائے، وہ جامد ہو یا سیال تو کیا حکم ہے؟ تو انھوں نے فرمایا: ہمیں یہ بات پہنچتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھی میں گرنے والی چوہیا کے متعلق فرمایا کہ اسے اور اس کے آس پاس والے گھی کو پھینک دو۔ اسے پھینک دیا گیا باقی ماندہ کو استعمال کرلیا گیا۔ (صحیح البخاري، الذبائح والصید، حدیث:5539) لیکن امام زہری ؒ کے اس ضابطے پر اعتراض ہوتا ہے کہ القاء ماحول جامد میں تو ہوسکتا ہے، لیکن سیال میں کیسے اس پر عمل کیا جائے گا؟ امام بخاری ؒ نے روایت:’’اگر وہ سیال ہے تو اس کے قریب نہ جاؤ۔‘‘ کو معلول قراردیا ہے جیسا کہ امام ترمذی ؒ نے اپنی سنن میں ان کے قول کا حوالہ دیا ہے۔ ( جامع الترمذي، الأطعمة، حدیث:1798) بہرحال اس سلسلے میں صحیح بات یہی ہے کہ ا گرگھی، شہد، دودھ اور پانی وغیرہ میں نجاست گرجائے تو دیکھا جائے اگرجامد ہے تونجاست اور اس کے ماحول کو باہر پھینک دیا جائے اور باقی قابل استعمال ہے اور اگرسیال ہے تو اسے پھینک دیا جائے اور استعمال نہ کیاجائے۔ واللہ أعلم۔
3۔ محدثین کرام کا ان احادیث کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ مسانید ابن عباس ؓ ہیں یا ان کا شمار مسانید حضرت میمونہ ؓ میں ہے؟ امام بخاری ؒ نے دونوں کے آخر میں فیصلہ دیا ہے کہ اصل حدیث ابن عباس ؓ عن میمونہ ؓ ہے، یعنی حضرت ابن عباس ؓ نے اس روایت کو حضرت میمونہ ؓ کے واسطے سے لیا ہے اور یہ مسانید حضرت میمونہ ؓ سے ہے۔ حضرت معن نے بارہا اس روایت کو امام مالک سے عن ابن عباس عن میمونہ ؓ کے طریق سے سنا ہے اور یہی صحیح ہے۔