باب: اگر منی یا کوئی اور نجاست (مثلاً حیض کا خون) دھوئے اور (پھر) اس کا اثر نہ جائے (تو کیا حکم ہے؟)۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: If the (traces of) Janaba (semen) or other spots are not removed completely on washing)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
237.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ منی کو نبی ﷺ کے کپڑوں سے دھوتی تھیں۔ (حضرت عائشہ نے کہا: ) پھر میں اس دھونے کا ایک دھبا یا کئی دھبے آپ کے کپڑوں میں دیکھتی تھی۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر ناپاک منی کو اچھی طرح دھو دیا جائے، اس کے باوجود اس کا دھبا زائل نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ اسے کسی خارجی چیز سے دھونے کی ضرورت نہیں۔ ان دھبوں کو زائل کرنا محض تکلف ہے۔ اسی طرح کپڑے کو خشک کرنے کی بھی ضرورت نہیں اگر پانی کے نشانات کپڑے پر نظر آتے ہیں تو چنداں حرج نہیں۔ شارحین کا اختلاف ہے کہ دھبوں سے مراد پانی کے دھبے ہیں یا منی کے؟ دراصل روایت میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں:۔ * پانی کے دھبے کپڑے میں موجود ہوتے تھے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:229) * دھونے کے دھبے کپڑے میں موجود ہوتے تھے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:230) * پھر میں کپڑے پر دھبے دیکھتی تھی۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:232) ان آخری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ دھونے کے بعد اس کپڑے میں منی کے دھبے نظر آتے تھے۔ پہلے اور دوسرے الفاظ سے پانی کے دھبے معلوم ہوتے ہیں، بہر حال دھونے کے بعد دھبوں کا بقا نقصان دہ نہیں۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے جنابت کے ساتھ غیرھا کا ذکر بھی کیا ہے، لیکن حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔ البتہ جنابت کا حکم معلوم کر لینے کے بعد دیگر نجاستوں کو اس پرقیاس کیا جا سکتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت خولہ بنت یسار ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول الله ﷺ ! میرے پاس صرف ایک کپڑا ہے حالت حیض میں وہ ملوث ہو جاتا ہے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا :’’جب تم پاک ہو جایا کرو تو اسے دھولیا کرو۔‘‘ عرض کیا :اگر اس سے خون کا دھبا نہ جائے تو؟آپ نے فرمایا :’’پانی سے دھولینا کافی ہے۔ اس کے بعد اگر نشان رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔‘‘ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:365)غیرھا کا لفظ بڑھانے سے یہ مقصد بھی ہو سکتا ہے کہ یہ حکم منی سے مخصوص نہیں دیگر نجاستوں کا بھی یہی حکم ہے۔ اگر یہ معنی لیا جائے تو حدیث الباب میں اسے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
234
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
232
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
232
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
232
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ منی کو نبی ﷺ کے کپڑوں سے دھوتی تھیں۔ (حضرت عائشہ نے کہا: ) پھر میں اس دھونے کا ایک دھبا یا کئی دھبے آپ کے کپڑوں میں دیکھتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر ناپاک منی کو اچھی طرح دھو دیا جائے، اس کے باوجود اس کا دھبا زائل نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ اسے کسی خارجی چیز سے دھونے کی ضرورت نہیں۔ ان دھبوں کو زائل کرنا محض تکلف ہے۔ اسی طرح کپڑے کو خشک کرنے کی بھی ضرورت نہیں اگر پانی کے نشانات کپڑے پر نظر آتے ہیں تو چنداں حرج نہیں۔ شارحین کا اختلاف ہے کہ دھبوں سے مراد پانی کے دھبے ہیں یا منی کے؟ دراصل روایت میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں:۔ * پانی کے دھبے کپڑے میں موجود ہوتے تھے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:229) * دھونے کے دھبے کپڑے میں موجود ہوتے تھے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:230) * پھر میں کپڑے پر دھبے دیکھتی تھی۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:232) ان آخری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ دھونے کے بعد اس کپڑے میں منی کے دھبے نظر آتے تھے۔ پہلے اور دوسرے الفاظ سے پانی کے دھبے معلوم ہوتے ہیں، بہر حال دھونے کے بعد دھبوں کا بقا نقصان دہ نہیں۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے جنابت کے ساتھ غیرھا کا ذکر بھی کیا ہے، لیکن حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔ البتہ جنابت کا حکم معلوم کر لینے کے بعد دیگر نجاستوں کو اس پرقیاس کیا جا سکتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت خولہ بنت یسار ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول الله ﷺ ! میرے پاس صرف ایک کپڑا ہے حالت حیض میں وہ ملوث ہو جاتا ہے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا :’’جب تم پاک ہو جایا کرو تو اسے دھولیا کرو۔‘‘ عرض کیا :اگر اس سے خون کا دھبا نہ جائے تو؟آپ نے فرمایا :’’پانی سے دھولینا کافی ہے۔ اس کے بعد اگر نشان رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔‘‘ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:365)غیرھا کا لفظ بڑھانے سے یہ مقصد بھی ہو سکتا ہے کہ یہ حکم منی سے مخصوص نہیں دیگر نجاستوں کا بھی یہی حکم ہے۔ اگر یہ معنی لیا جائے تو حدیث الباب میں اسے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے، کہا ہم سے عمرو بن میمون بن مہران نے، انھوں نے سلیمان بن یسار سے، وہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول کریم ﷺ کے کپڑے سے منی کو دھو ڈالتی تھیں (وہ فرماتی ہیں کہ) پھر (کبھی) میں ایک دھبہ یا کئی دھبے دیکھتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
قسطلانی ؒ نے کہا کہ اگراس کا نشان دورکرنا سہل ہو تو اسے دور ہی کرنا چاہیے، مشکل ہو تو کوئی حرج نہیں۔ اگر رنگ کے ساتھ بوبھی باقی رہ جائے تو وہ کپڑا پاک نہ ہوگا۔ حضرت امام بخاری ؒ نے اس با ت میں منی کے سوا اور نجاستوں کا صراحتاً ذکر نہیں فرمایا۔ بلکہ ان سب کو منی ہی پر قیاس کیا، اس طرح سب کا دھونا ضروری قرار دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): I used to wash the semen off the clothes of the Prophet (ﷺ) and even then I used to notice one or more spots on them.