تشریح:
(1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ انسان کے لیے اپنی خود داری کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ جس طرح بھی ہو سکے اپنے ہاتھ سے کمائی کرے۔ یہ اس بات سے کہیں بہتر ہے کہ دوسروں کے سامنے سوال کرتا پھرے۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ رزق کا راستہ کھول دیتا ہے۔ (2) ان احادیث میں لکڑیوں کو فروخت کرنے کا حکم بیان ہوا ہے، پانی پینے پلانے کی احادیث میں انہیں اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ پانی، گھاس اور لکڑیوں سے نفع اٹھانے میں سب لوگ شریک ہیں اور یہ چیزیں کسی کی ملکیت نہیں، جو بھی ان پر پہلے قبضہ کر لے وہی ان کا مالک ہے اور اس کے لیے مباح اور جائز ہیں۔ روایات میں اگرچہ لکڑیوں کا ذکر ہے، تاہم امام بخاری ؒ نے گھاس کو بھی اس میں شامل فرمایا ہے۔ جنگل سے گھاس کاٹ کر لانا اور بازار میں اسے فروخت کرنا، اللہ کے ہاں یہ بھی ایک پسندیدہ عمل ہے، اس سے آدمی سوال کرنے کی لعنت سے محفوظ رہتا ہے۔ (3) یاد رہے کہ اگر یہ چیزیں کسی کی ملکیت ہیں تو پھر مالک کی اجازت کے بغیر انہیں استعمال کرنا درست نہیں۔