باب: اونٹ، بکری اور چوپایوں کا پیشاب اور ان کے رہنے کی جگہ کے بارے میں۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: (What is said) about the urine of camels, sheep and other animals and about their folds)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے داربرید میں نماز پڑھی ( حالانکہ وہاں گوبر تھا ) اور ایک پہلو میں جنگل تھا۔ پھر انھوں نے کہا یہ جگہ اور وہ جگہ برابر ہیں۔تشریح : دارالبرید کوفہ میں سرکاری جگہ تھی۔ جس میں خلیفہ کے ایلچی قیام کیا کرتے تھے۔ حضرت عمر اور عثمان ؓ کے زمانوں میں ابوموسیٰ ؓ کوفہ کے حاکم تھے۔ اسی جگہ اونٹ، بکری وغیرہ جانوربھی باندھے جاتے تھے۔ اس لیے حضرت ابوموسیٰ نے اسی میں نماز پڑھ لی اور صاف جنگل میں جوقریب ہی تھاجانے کی ضرورت نہ سمجھی پھر لوگوں کے دریافت کرنے پر بتلایا کہ مسئلہ کی رو سے یہ جگہ اور وہ صاف جنگل دونوں برابر ہیں اور اس قسم کے چوپایوں کالید اور گوبر نجس نہیں ہے۔
239.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ مسجد (نبوی) بننے سے پہلے بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔
تشریح:
1۔ مسجد نبوی کی تعمیر ہجرت سے چھ ماہ بعد ہوئی ہے۔ اس سے قبل آپ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیتے تھے۔ چونکہ بکریاں وہاں پیشاب اور مینگنیاں کرتی تھیں اس کے باوجودآپ نے وہاں نماز پڑھی اور نماز پڑھنے کی اجازت دی، تو معلوم ہوا کہ ان کا پیشاب وغیرہ پلید نہیں، البتہ اونٹوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے سے آپ نے منع فرمایا ہے، کیونکہ ان کے مستی میں آنے سے نقصان کا اندیشہ ہے۔ 2۔ امام بخاری ؒ اونٹوں، بکریوں اور دیگر جانوروں کے پیشاب کی طہارت کے قائل ہیں اور مرابض غنم (بکریوں کے باڑوں) کا ذکر کر کے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان حیوانات کا پیشاب بھی پاک ہے۔ عنوان میں"دواب" کا لفظ زیادہ کیا تاکہ تمام ماکول اللحم جانوروں کا حکم بتا دیا جائے، گویا آپ نے قیاس کے ذریعے سے ان کو بھی اونٹوں اور بکریوں کے حکم میں شامل کیا ہے، بہرحال دین اسلام کے سہل اور یسر(آسان) ہونے کا تقاضا ہے کہ جن جانوروں کا گوشت استعمال ہوتا ہے ان کے بول وبراز کے متعلق اس قدر سختی مناسب نہیں کہ اسے نجس قراردے کر اس سے اجتناب کی تلقین کی جائے۔ دیہاتی ماحول کے لیے یہ ضابطہ انتہائی پیچیدگی اور مشکل کا باعث ہوسکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
236
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
234
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
234
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
234
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے داربرید میں نماز پڑھی ( حالانکہ وہاں گوبر تھا ) اور ایک پہلو میں جنگل تھا۔ پھر انھوں نے کہا یہ جگہ اور وہ جگہ برابر ہیں۔تشریح : دارالبرید کوفہ میں سرکاری جگہ تھی۔ جس میں خلیفہ کے ایلچی قیام کیا کرتے تھے۔ حضرت عمر اور عثمان ؓ کے زمانوں میں ابوموسیٰ ؓ کوفہ کے حاکم تھے۔ اسی جگہ اونٹ، بکری وغیرہ جانوربھی باندھے جاتے تھے۔ اس لیے حضرت ابوموسیٰ نے اسی میں نماز پڑھ لی اور صاف جنگل میں جوقریب ہی تھاجانے کی ضرورت نہ سمجھی پھر لوگوں کے دریافت کرنے پر بتلایا کہ مسئلہ کی رو سے یہ جگہ اور وہ صاف جنگل دونوں برابر ہیں اور اس قسم کے چوپایوں کالید اور گوبر نجس نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ مسجد (نبوی) بننے سے پہلے بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ مسجد نبوی کی تعمیر ہجرت سے چھ ماہ بعد ہوئی ہے۔ اس سے قبل آپ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیتے تھے۔ چونکہ بکریاں وہاں پیشاب اور مینگنیاں کرتی تھیں اس کے باوجودآپ نے وہاں نماز پڑھی اور نماز پڑھنے کی اجازت دی، تو معلوم ہوا کہ ان کا پیشاب وغیرہ پلید نہیں، البتہ اونٹوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے سے آپ نے منع فرمایا ہے، کیونکہ ان کے مستی میں آنے سے نقصان کا اندیشہ ہے۔ 2۔ امام بخاری ؒ اونٹوں، بکریوں اور دیگر جانوروں کے پیشاب کی طہارت کے قائل ہیں اور مرابض غنم (بکریوں کے باڑوں) کا ذکر کر کے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان حیوانات کا پیشاب بھی پاک ہے۔ عنوان میں"دواب" کا لفظ زیادہ کیا تاکہ تمام ماکول اللحم جانوروں کا حکم بتا دیا جائے، گویا آپ نے قیاس کے ذریعے سے ان کو بھی اونٹوں اور بکریوں کے حکم میں شامل کیا ہے، بہرحال دین اسلام کے سہل اور یسر(آسان) ہونے کا تقاضا ہے کہ جن جانوروں کا گوشت استعمال ہوتا ہے ان کے بول وبراز کے متعلق اس قدر سختی مناسب نہیں کہ اسے نجس قراردے کر اس سے اجتناب کی تلقین کی جائے۔ دیہاتی ماحول کے لیے یہ ضابطہ انتہائی پیچیدگی اور مشکل کا باعث ہوسکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے دارالبرید اور سرقین میں نماز ادا کی جبکہ جنگل، یعنی میدانی علاقہ ان کے پہلو میں تھا اور انہوں نے فرمایا: یہاں اور وہاں دونوں برابر ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا مجھے ابوالتیاح یزید بن حمید نے حضرت انس ؓ سے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد کی تعمیر سے پہلے نماز بکریوں کے باڑے میں پڑھ لیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ بکریوں وغیرہ کے باڑے میں بوقت ضرورت نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Prior to the construction of the mosque, the Prophet (ﷺ) offered the prayers at sheep-folds.