تشریح:
1۔ اس عنوان کے تحت پہلی حدیث کہ ہم آخر میں آنے والے ہیں مگر سبقت کرجانے والے ہیں، اس کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں، اگرچہ بعض شارحین نے مناسبت پیدا کرنے کے لیے دورازکار تاویلات کا سہارا لیا ہے۔ دراصل امام بخاری ؒ نے اسے بطور علامت ذکر کیا ہے تاکہ اس کے ماخذ کی طرف اشارہ ہوجائے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کے دوشاگرد ہیں:* عبدالرحمان بن ہرمز الاعرج * ہمام بن منبہ۔ ان دونوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے جو احادیث سنیں، انھیں قلم بند کرکے اپنے اپنے صحیفوں میں محفوظ کر لیا۔ امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ ان دونوں کے مرتب کردہ صحیفوں سے احادیث بیان کرتے ہیں۔ امام مسلم ؒ ان سے بیان کرتے وقت پہلے بطور علامت یہ جملہ لاتے ہیں: (فذكر أحاديث منها) پھر قال رسول اللہ ﷺ سے حدیث کا آغاز کرتے ہیں، لیکن امام بخاری ؒ ان سے بیان کرتے وقت: (نحن الآخرون السابقون) کاجملہ شرو ع میں لاتے ہیں۔ ویسے امام بخاری ؒ نے مستقل طورپرمکمل حدیث کتاب الجمعہ (875) میں بیان کی ہے۔ حضرت عبدالرحمان بن ہرمز الاعرج کے طریق سے مندرجہ ذیل مقامات پر یہ انداز دیکھا جاسکتا ہے: الوضوء(حدیث:238)، الجہاد (حدیث 2956)،الدیات (حدیث 6887) ،التوحید (74959) بعض مقامات پر اس جملے کے بغیربھی احادیث بیان کی ہیں، مثلاً: کتاب التوحید، حدیث 7506،7501،7504۔7505۔ شاید باب میں ایک جگہ ذکر کرنے کو کافی خیال کر لیا گیا ہو۔ اسی طرح ہمام بن منبہ کے طریق سے مندرجہ ذیل مقامات پر یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، الإیمان والنذور، حدیث:6624 وکتاب التعبیر، حدیث :7036) بعض اوقات اس جملے کے بغیر بھی اس طریق سے احادیث بیان کی ہیں: احادیث الانبیاء (حدیث :3472) التوحید: (7498) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ اعرج اورہمام کے علاوہ بھی جب حضرت طاؤس کے طریق سے بیان کرتے ہیں تو بعض اوقات ان الفاظ کو شروع میں لاتے ہیں، مثلاً: کتاب الجمعہ (حدیث:896)، احادیث الانبیاء (حدیث :3486)
2۔ امام بخاری ؒ کا دوسری حدیث بیان کرنے سے یہ مقصد ہے کہ اگر رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی اجازت دی جائے گی تو ایک راستہ کھل جائے گا، جب اس طرح لوگ اس میں پیشاب کرنے لگیں گے تو ایک نہ ایک دن وہ پانی متغیر ہوکرنجس ہوجائے گا، پھر وہ غسل اور وضو کے قابل نہیں رہے گا، اس لیے رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت اس دروازے کو بند کرنے کے پیش نظر ہے، تاکہ لوگ کثرت سے پیشاب کرنے کی وجہ سے اسے ناقابل استعمال نہ کردیں۔
3۔ حدیث میں الدائم کے بعد الذی لایجري کے الفاظ بطور صفت کاشفہ نہیں، بلکہ انھیں احتراز کے طور پر بیان کیا گیا ہے، یعنی ماء دائم کی دو اقسام ہیں:* ماء دائم غیر جاری، جیسے تالاب اور جوہڑ وغیرہ * ماء دائم جاری، جیسے کنویں، جن کا پانی بہنے والے سوتوں کےذریعے سے اوپر آتا رہتا ہے۔ لیکن مذکورہ صفت حکم سے متعلق نہیں کہ اس سے ماء دائم جاری میں پیشاب کرنے کی اجازت ثابت کرنے لگیں، کیونکہ مفہوم مخالف ہرجگہ نہیں ہوتا، بلکہ اس طرح کی قیود کے فوائد دوسرے ہوتے ہیں،مثلاً: یہاں پانی میں پیشاب کرنے کی قباحت کو نمایاں کرنا مقصود ہے، گویا ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب سے منع کیا، خاص طور پر وہ پانی جو جاری بھی نہ ہو، اس سے پیشاب کرنے کی قباحت کو ظاہرکرنا مقصود ہے۔
4۔ اصحاب ظواہرنے اس حدیث کو اپنے ذوق کے مطابق عجیب معنی پہنائے ہیں، لکھا ہے کہ ممانعت پیشاب کے ساتھ خاص ہے۔ اگر اس میں کوئی پاخانہ کردے تو کوئی حرج نہیں، نہ اس کی ممانعت ہے، یعنی اس پانی سے خود بھی اور دوسرے بھی وضو اور غسل کر سکتے ہیں۔ یہ بھی جائز ہے کہ پیشاب کرنے والا کسی برتن میں پیشاب کرکے پانی میں ڈال دے یا پیشاب قریب میں کرے کہ وہاں سے خودبہہ کر پانی میں چلا جائے تو اس سے بھی وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (محلی بن حزم:35/1)
5۔ اس عنوان کے تحت پہلی حدیث کیوں بیان کی گئی ہے جبکہ اس کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں؟ اسے ہم پہلے بیان کر آئے ہیں، لیکن’’اصحاب تدبر‘‘ کے ہاں احادیث بخاری میں تشکیک پیداکرنا ایک محبوب مشغلہ ہے، اس کے لیے وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، چنانچہ لکھا ہے: لیکن سوال یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے دو بے جوڑ باتوں کو یہاں کیوں لیا ہے جبکہ باب کی رعایت سے ان کا تعلق روایت کے آخری ٹکڑے سے تھا، وہ اس کو لے لیتے اور پہلے ٹکڑے کو چھوڑدیتے۔‘‘ (تدبرحدیث:329/1)