تشریح:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تراجم ابواب بخاری میں لکھتے ہیں: امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ جو چیزیں ابتدائے نماز میں دخول کےلیے مانع قراردی گئی ہیں اگر اثنائے نماز میں بدن یا کپڑے کولگ جائیں تو یہ چیزیں بقائے نماز کے لیے نقصان دہ نہیں، گویا آپ ابتدا اور بقا کا فرق بیان کررہے ہیں، چنانچہ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ دوران نمازمیں اگر کوئی نمازی پر گندگی پھینک دے یا مردار کے جسم کا کوئی حصہ ڈال دے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔ دراصل امام بخاری ؒ نے پہلے باب میں ایک مسئلہ بیان کیا تھا کہ پانی میں اگرپیشاب وغیرہ پڑ جائے تو پانی اس وقت نجس ہوگا جب اس کا اثر پانی میں ظاہر ہوجائے۔ اس پر اعتراض ہوا کہ سبب نجاست موجود ہے۔ لیکن حکم نجاست ندارد! یہ عجیب بات ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس اشکال کو دور کرنے کے لیے نماز کا مسئلہ بیان کردیا کہ بعض اوقات دوران نماز میں سبب نجاست موجود ہوتا ہے، لیکن حکم نجاست مؤخر کردیا جاتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عمر ؓ کا ایک اثر پیش کیا ہے جسے مصنف ابن ابی شیبہ (317/3) میں موصولاً بیان کیا گیا ہے کہ جب وہ نماز کی حالت میں کپڑے پر خون کا اثر دیکھتے تو اگر کپڑے اتار سکتے تو اتاردیتے، بصورت دیگر نماز سے ہٹ کر اسے دھوتے اور پھر باقی نماز بنا کرکے پوری کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے امر مذکور کی تصحیح کے بعد لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ ابتداء اوردوام میں فرق کرتے تھے اور یہی قول ایک جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین ؒ کا ہے۔ (فتح الباري:453/1) اس اثر کے جواب میں علامہ عینی لکھتے ہیں کہ اثر مذکور کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ بحالت نماز اگر نمازی پر کوئی نجاست گر جائے تو اس سے نماز خراب نہیں ہوتی، جبکہ حضرت ابن عمرؓ اگردوران نماز میں اپنے کپڑے پر کوئی خون کا نشان دیکھتے تو اسے اتار دیتے اور نماز جاری رکھتے تھے، یعنی کپڑے پر نجاست کی موجودگی میں وہ نماز جائز نہ سمجھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ اسے اتار کر الگ کردیتے، لہذا حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق یہ کہنا کہ وہ ابتدا اور دوام میں فرق کرتے تھے۔ درست نہیں، کیونکہ حضرت ابن عمر ؓ کسی حالت میں بھی نجاست آلود کپڑے میں نماز درست نہ سمجھتے تھے۔ (عمدة القاري:671/2) امام شعبی اور سعید بن مسیب ؒ کا اثر بھی مصنف ابن ابی شیبہ (463/3) میں موصولاً بیان ہوا ہے۔
2۔ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ اگرچہ تمام ائمہ سے الگ ہے، تاہم روایت مذکور سے اسے تقویت ملتی ہے، کیونکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی حالت میں نماز کو جاری رکھا اور سلام کے بعد ان کے حق میں بددعا فرمائی۔ (فتح الباري:456/1) لیکن حافظ ا بن حجرؒ نے لکھا ہے کہ آپ پر نجاست پھینکنے کا واقعہ نماز کے وقت کپڑے پاک رکھنے کےحکم سے پہلے کا ہے، چنانچہ ابن منذر سے منقول ہے کہ یہ واقعہ آیت:﴿ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ﴾ کے نزول سے پہلے کا ہے، بلکہ اس آیت کی شان نزول ہی یہ واقعہ ہے۔ (فتح الباري:866/8) مگر اس پر یہ اشکال ہے کہ داخلی قرائن سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورہ مدثر کے نزول سے پہلے لوگوں کو آپ سے اس قدر عداوت نہ تھی کہ وہ دوران نماز میں آپ سے اس طرح کی حرکت کریں، کیونکہ سورہ مدثر فترتِ وحی کے بعد نازل ہوئی ہے اور اس فترت کے تین سال ہیں۔ اس سورت میں آپ کو تبلیغ کرنے کا حکم ہوا اور تبلیغ کرنے کے نتیجے میں آپ سے لوگوں کی عداوت کا آغاز ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اس سورت کے نزول کے بعد کا ہے۔ واللہ أعلم۔
3۔ روایت میں ہے کہ ساتویں شخص کا نام بھی لیا، لیکن راوی کو بھول گیا، بھولنے والے ابواسحاق راوی حدیث ہیں، کبھی ان کو یاد آتا تو اس کی وضاحت کر دیتے۔ جیسا کہ امام بخاری ؒ نے ایک روایت میں صراحت کی ہے کہ وہ عمارہ بن ولید تھا۔ (صحیح البخاري، الصلاۃ، حدیث:520) لیکن عمارہ بن ولید غزوہ بدر کے موقع پر نہیں مرا بلکہ وہ حبشہ کی سرزمین پر واصل جہنم ہوا، جبکہ اس نے نجاشی کی عورت کے ساتھ شرارت کی تھی۔ (فتح الباري:457/1) اسی طرح عقبہ بن ابی معیط بھی میدان بدر میں نہیں ماراگیا، بلکہ اسے میدان بدر میں قید کر کے مدینہ کے پاس پہنچ کر قتل کیا گیا۔ جیسا کہ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے۔ اسے عرق الظبیہ کے مقام پر خود رسول اللہ ﷺ نے قتل کیا اور آپ نے اسے قتل کرتے وقت نجاست ڈالنے کا واقعہ بھی یاد دلایا۔ (عمدة القاری: 677/2) معلوم ہوا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ کا یہ کہنا: میں نے ان لوگوں کو دیکھا ہے کہ جن کارسول اللہ ﷺ نے نام لیا تھا، وہ بدر کے کنویں میں مرے پڑے تھے، یہ اکثریت کی بنا پر ہے، کیونکہ تمام کے تمام اس کنویں میں نہیں پھینکے گئے تھے۔ (فتح الباري:457/1)
4۔ حضرت فاطمہ ؓ کے کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی نسبی شرافت اور بلندی مرتبہ کے ساتھ ساتھ حوصلے اور دل کی بھی مضبوط تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے برملا طور پر سرداران قریش کو بُرا بھلا کہا اور کسی کو ان کے مقابلے میں جواب دینے کی بھی جرائت نہ ہوسکی۔ (فتح الباري:458/1)
5۔ بہرحال امام بخاری ؒ کا یہی موقف ہے کہ دوران نماز نجاست لگنے سے نماز میں خلل نہیں آتا، البتہ نماز کے آغاز میں ہر قسم کی طہارت کا اہتمام ضروری ہے۔ واللہ أعلم۔