باب: ان نجاستوں کے بارے میں جو گھی اور پانی میں گر جائیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: An-Najasat (impure and filthy things) which fall in cooking butter (ghee - which is obtained by evaporating moisture from butter) and water)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
زہری نے کہا کہ جب تک پانی کی بو، ذائقہ اور رنگ نہ بدلے، اس میں کچھ حرج نہیں اور حماد کہتے ہیں کہ ( پانی میں ) مردار پرندوں کے پر ( پڑ جانے ) سے کچھ حرج نہیں ہوتا۔ مردوں کی جیسے ہاتھی وغیرہ کی ہڈیاں اس کے بارے میں زہری کہتے ہیں کہ میں نے پہلے لوگوں کو علماء سلف میں سے ان کی کنگھیاں کرتے اور ان ( کے برتنوں ) میں تیل رکھتے ہوئے دیکھا ہے، وہ اس میں کچھ حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ابن سیرین اور ابراہیم کہتے ہیں کہ ہاتھی کے دانت کی تجارت میں کچھ حرج نہیں۔
240.
حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ سے ایک چوہیا کے متعلق پوچھا گیا جو گھی میں گر گئی تھی؟ آپ نے فرمایا: ’’اسے نکال دو اور اس کے قریب جس قدر گھی ہو اسے بھی پھینک دو، پھر اپنا باقی گھی استعمال کر لو۔‘‘
تشریح:
1۔ سنن نسائی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ چوہیا جمے ہوئے گھی میں گرجائے۔ (سنن نسائي، الفرع والعتیرة، حديث:4263) صحیح بخاری کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ وہ چوہیا گھی میں گرنے کے بعد اس میں مر جائے۔ (صحیح البخاري، الذبائح، حدیث:5538) سنن ابی داود میں مزید وضاحت ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:’’اگرچوہا گھر میں گرجائے، اگرگھی جما ہوا ہے تو چوہے اور اس کے اردگرد کے گھی کو پھینک دواور اگرگھی سیال ہے تو اس کے پاس مت جاؤ۔‘‘ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث:3842) حدیث بخاری سے صرف جامد کا مسئلہ معلوم ہوتا ہے، سیال کا نہیں کیونکہ اگر سیال میں نجاست گرے گی تو اس کے آس پاس کے حصے کا تعین کرنا اور پھینکنا ممکن ہی نہیں، کیونکہ جس طرف سے بھی اسے الٹنا چاہیں گے اس کی جگہ فوراً دوسرے حصے پیچھے سے آجائیں گے اور وہ بھی اردگرد کے حصے بن جائیں گے یہاں تک کہ پورے کو پھینکنا پڑے گا اور القائے ماحول (اردگرد کے پھینکنے) کا حکم صرف جامد میں جاری ہو سکتا ہے، سیال اشیاء میں یہ حکم جاری نہیں ہوسکتا۔ اگرچہ حدیث بخاری اپنے الفاظ اور منطوق کے لحاظ سے سیال اور جامد کے فرق پر دلالت نہیں کرتی، تاہم اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے جامد اور سیال کا فرق بتلارہی ہے۔ حدیث بخاری کے مفہوم مذکور کی تائید ابوداؤد کی حدیث ابی ہریرہ ؓ (نمبر3842) اور سنن نسائی کی حدیث میمونہ (نمبر 4264) کے منطوق سے بھی ہوتی ہے۔ 2۔ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ ایک عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک جامد اورسیال کا کوئی فرق نہیں، چنانچہ کتاب الذبائح والصید میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کرتے ہیں: (باب إذا وقعت الفأرة في السمن الجامد أو الذائب)’’جب جامد یا سیال گھی میں چوہیا گرجائے۔‘‘ اس کے تحت انھوں نے حدیث میمونہ ذکر کی ہے، نیز انھوں نے امام زہری ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان سے سوال ہواکہ اگر کوئی بھی جاندار(چوہیا وغیرہ) گھی یاتیل میں گرجائے، وہ جامد ہو یا سیال تو کیا حکم ہے؟ تو انھوں نے فرمایا: ہمیں یہ بات پہنچتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھی میں گرنے والی چوہیا کے متعلق فرمایا کہ اسے اور اس کے آس پاس والے گھی کو پھینک دو۔ اسے پھینک دیا گیا باقی ماندہ کو استعمال کرلیا گیا۔(صحیح البخاري، الذبائح والصید، حدیث:5539) لیکن امام زہری ؒ کے اس ضابطے پر اعتراض ہوتا ہے کہ القاء ماحول جامد میں تو ہوسکتا ہے، لیکن سیال میں کیسے اس پر عمل کیا جائے گا؟ امام بخاری ؒ نے روایت:’’اگر وہ سیال ہے تو اس کے قریب نہ جاؤ۔‘‘ کو معلول قراردیا ہے جیسا کہ امام ترمذی ؒ نے اپنی سنن میں ان کے قول کا حوالہ دیا ہے۔ ( جامع الترمذي، الأطعمة، حدیث:1798) بہرحال اس سلسلے میں صحیح بات یہی ہے کہ ا گرگھی، شہد، دودھ اور پانی وغیرہ میں نجاست گرجائے تو دیکھا جائے اگرجامد ہے تونجاست اور اس کے ماحول کو باہر پھینک دیا جائے اور باقی قابل استعمال ہے اور اگرسیال ہے تو اسے پھینک دیا جائے اور استعمال نہ کیاجائے۔ واللہ أعلم۔ 3۔ محدثین کرام کا ان احادیث کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ مسانید ابن عباس ؓ ہیں یا ان کا شمار مسانید حضرت میمونہ ؓ میں ہے؟ امام بخاری ؒ نے دونوں کے آخر میں فیصلہ دیا ہے کہ اصل حدیث ابن عباس ؓ عن میمونہ ؓ ہے، یعنی حضرت ابن عباس ؓ نے اس روایت کو حضرت میمونہ ؓ کے واسطے سے لیا ہے اور یہ مسانید حضرت میمونہ ؓ سے ہے۔ حضرت معن نے بارہا اس روایت کو امام مالک سے عن ابن عباس عن میمونہ ؓ کے طریق سے سنا ہے اور یہی صحیح ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
237
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
235
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
235
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
235
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نجاستوں کی تفصیل بیان کرنے کے بعد اب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگرنجاست کسی چیز میں گر جائے تو اس کا کیاحکم ہے؟کیا وہ چیز،نجاست گرتے ہی ناپاک ہوجائے گی یا اس کی کچھ حدود شرائط ہیں یا سرے سے نجاست اس میں اثر انداز ہی نہیں ہوگی؟امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک پانی میں نجاست گرنے کے بعد اس کی طہارت ونجاست کا دارومدار پانی کے اوصاف ثلاثہ کے بدلنے یا نہ بدلنے پر ہے۔اگراوصاف بدل گئے تو ناپاک،بصورت دیگر پاک ہے۔پانی کے تین اوصاف ہیں:ذائقہ ،بواور رنگ۔اگرنجاست کی وجہ سے ان اوصاف میں تبدیلی آجاتی ہے تو پانی ناپاک ہوجاتا ہے بصورت دیگر پاک رہتا ہے۔امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی مدار تغیر اوصاف پر ہے۔اگر پانی اپنے اوصاف پر قائم ہے تو پاک ہے،اگرنجاست کی وجہ سے اوصاف میں تبدیلی آگئی تو ناپاک ہوجائے گا۔حضرت حماد کے فرمان کا مطلب بھی یہی ہے کہ مردار کے پر اگرپانی میں گرجائیں تو پانی پلید نہیں ہوتا،حالانکہ میتہ(مردار )ناپاک ہے اور اس کا جز اگر پانی میں گرجائے تو اس سے پانی ناپاک ہونا چاہیے لیکن اس کے گرنے سے پانی کے اوصاف میں کوئی تغیر نہیں آیا،لہذا پر گرنے کے بعد پانی استعمال میں کوئی حرج نہیں۔اس سلسلے میں اصول یہ ہے کہ جو چیزیں تغیر کوقبول کرتی ہیں وہ تغیرکے بعد ناپاک ہو جاتی ہیں۔ہڈی مردہ کی ہویا زندہ کی ،بال مردہ کے ہوں یازندہ کے،دانت مردہ کے ہوں یا زندہ کے ،ان میں تغیر نہیں آتا،اس لیے مردار کا جز ہونے کے باوجود یہ پاک رہیں گے اور انھیں ناپاک قرارنہیں دیا جائے گا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت جتنے بھی آثار پیش فرمائے ہیں ان میں یہی اصول کارفرماہے۔اب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلے میں چند احادیث بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔
زہری نے کہا کہ جب تک پانی کی بو، ذائقہ اور رنگ نہ بدلے، اس میں کچھ حرج نہیں اور حماد کہتے ہیں کہ ( پانی میں ) مردار پرندوں کے پر ( پڑ جانے ) سے کچھ حرج نہیں ہوتا۔ مردوں کی جیسے ہاتھی وغیرہ کی ہڈیاں اس کے بارے میں زہری کہتے ہیں کہ میں نے پہلے لوگوں کو علماء سلف میں سے ان کی کنگھیاں کرتے اور ان ( کے برتنوں ) میں تیل رکھتے ہوئے دیکھا ہے، وہ اس میں کچھ حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ابن سیرین اور ابراہیم کہتے ہیں کہ ہاتھی کے دانت کی تجارت میں کچھ حرج نہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ سے ایک چوہیا کے متعلق پوچھا گیا جو گھی میں گر گئی تھی؟ آپ نے فرمایا: ’’اسے نکال دو اور اس کے قریب جس قدر گھی ہو اسے بھی پھینک دو، پھر اپنا باقی گھی استعمال کر لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ سنن نسائی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ چوہیا جمے ہوئے گھی میں گرجائے۔ (سنن نسائي، الفرع والعتیرة، حديث:4263) صحیح بخاری کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ وہ چوہیا گھی میں گرنے کے بعد اس میں مر جائے۔ (صحیح البخاري، الذبائح، حدیث:5538) سنن ابی داود میں مزید وضاحت ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:’’اگرچوہا گھر میں گرجائے، اگرگھی جما ہوا ہے تو چوہے اور اس کے اردگرد کے گھی کو پھینک دواور اگرگھی سیال ہے تو اس کے پاس مت جاؤ۔‘‘ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث:3842) حدیث بخاری سے صرف جامد کا مسئلہ معلوم ہوتا ہے، سیال کا نہیں کیونکہ اگر سیال میں نجاست گرے گی تو اس کے آس پاس کے حصے کا تعین کرنا اور پھینکنا ممکن ہی نہیں، کیونکہ جس طرف سے بھی اسے الٹنا چاہیں گے اس کی جگہ فوراً دوسرے حصے پیچھے سے آجائیں گے اور وہ بھی اردگرد کے حصے بن جائیں گے یہاں تک کہ پورے کو پھینکنا پڑے گا اور القائے ماحول (اردگرد کے پھینکنے) کا حکم صرف جامد میں جاری ہو سکتا ہے، سیال اشیاء میں یہ حکم جاری نہیں ہوسکتا۔ اگرچہ حدیث بخاری اپنے الفاظ اور منطوق کے لحاظ سے سیال اور جامد کے فرق پر دلالت نہیں کرتی، تاہم اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے جامد اور سیال کا فرق بتلارہی ہے۔ حدیث بخاری کے مفہوم مذکور کی تائید ابوداؤد کی حدیث ابی ہریرہ ؓ (نمبر3842) اور سنن نسائی کی حدیث میمونہ (نمبر 4264) کے منطوق سے بھی ہوتی ہے۔ 2۔ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ ایک عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک جامد اورسیال کا کوئی فرق نہیں، چنانچہ کتاب الذبائح والصید میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کرتے ہیں: (باب إذا وقعت الفأرة في السمن الجامد أو الذائب)’’جب جامد یا سیال گھی میں چوہیا گرجائے۔‘‘ اس کے تحت انھوں نے حدیث میمونہ ذکر کی ہے، نیز انھوں نے امام زہری ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان سے سوال ہواکہ اگر کوئی بھی جاندار(چوہیا وغیرہ) گھی یاتیل میں گرجائے، وہ جامد ہو یا سیال تو کیا حکم ہے؟ تو انھوں نے فرمایا: ہمیں یہ بات پہنچتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھی میں گرنے والی چوہیا کے متعلق فرمایا کہ اسے اور اس کے آس پاس والے گھی کو پھینک دو۔ اسے پھینک دیا گیا باقی ماندہ کو استعمال کرلیا گیا۔(صحیح البخاري، الذبائح والصید، حدیث:5539) لیکن امام زہری ؒ کے اس ضابطے پر اعتراض ہوتا ہے کہ القاء ماحول جامد میں تو ہوسکتا ہے، لیکن سیال میں کیسے اس پر عمل کیا جائے گا؟ امام بخاری ؒ نے روایت:’’اگر وہ سیال ہے تو اس کے قریب نہ جاؤ۔‘‘ کو معلول قراردیا ہے جیسا کہ امام ترمذی ؒ نے اپنی سنن میں ان کے قول کا حوالہ دیا ہے۔ ( جامع الترمذي، الأطعمة، حدیث:1798) بہرحال اس سلسلے میں صحیح بات یہی ہے کہ ا گرگھی، شہد، دودھ اور پانی وغیرہ میں نجاست گرجائے تو دیکھا جائے اگرجامد ہے تونجاست اور اس کے ماحول کو باہر پھینک دیا جائے اور باقی قابل استعمال ہے اور اگرسیال ہے تو اسے پھینک دیا جائے اور استعمال نہ کیاجائے۔ واللہ أعلم۔ 3۔ محدثین کرام کا ان احادیث کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ مسانید ابن عباس ؓ ہیں یا ان کا شمار مسانید حضرت میمونہ ؓ میں ہے؟ امام بخاری ؒ نے دونوں کے آخر میں فیصلہ دیا ہے کہ اصل حدیث ابن عباس ؓ عن میمونہ ؓ ہے، یعنی حضرت ابن عباس ؓ نے اس روایت کو حضرت میمونہ ؓ کے واسطے سے لیا ہے اور یہ مسانید حضرت میمونہ ؓ سے ہے۔ حضرت معن نے بارہا اس روایت کو امام مالک سے عن ابن عباس عن میمونہ ؓ کے طریق سے سنا ہے اور یہی صحیح ہے۔
ترجمۃ الباب:
امام زہری بیان کرتے ہیں کہ پانی کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں جب تک نجاست اس کا مزہ، بو یا رنگ نہ بدلے۔ حضرت حماد نے فرمایا: مردار کے بال اور پروں میں (اگر وہ پانی میں گر جائیں) کوئی مضائقہ نہیں۔ زہری فرماتے ہیں: مردار جانور، مثلا: ہاتھی وغیرہ کی ہڈیوں کے متعلق میں نے بہت سے علمائے سلف کو پایا کہ وہ ان کی کنگھی بنا کر استعمال کرتے تھے اور ان میں تیل رکھتے تھے، نیز ان کے استعمال میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔ امام ابن سیرین اور ابراہیم فرماتے ہیں کہ ہاتھی دانت کی تجارت میں کوئی حرج نہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے روایت کیا، وہ عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے، وہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے وہ ام المؤمنین حضرت میمونہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے چوہے کے بارہ میں پوچھا گیا جو گھی میں گر گیا تھا۔ فرمایا اس کو نکال دو اور اس کے آس پاس (کے گھی) کو نکال پھینکو اور اپنا (باقی) گھی استعمال کرو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Maimuna (RA): Allah's Apostle (ﷺ) was asked regarding ghee (cooking butter) in which a mouse had fallen. He said, "Take out the mouse and throw away the ghee around it and use the rest."