تشریح:
(1) اس حدیث میں ’’تجھے اختیار ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ تیرے لیے اس میں تصرف کرنا جائز ہو گا، لیکن جب اس کا مالک مل جائے تو وہ چیز یا اس کا بدل دینا لازم ہو گا۔ (2) اسلام نے گری پڑی اشیاء کی بڑی حفاظت کی ہے۔ ان کے اٹھانے والوں کو اسی صورت میں اٹھانے کی اجازت ہے کہ وہ انہیں اصل مالک تک لے جانے کی کوشش کریں۔ انہیں ہضم کرنے کے لیے ہرگز ہرگز نہ اٹھائیں۔ بعض ائمہ کا موقف ہے کہ اگر کوئی جنگل میں بھٹکی ہوئی بکری پائے اور تشہیر کے بعد اسے ذبح کر کے کھا لے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہو گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی یا بھیڑیے کی نذر ہے۔‘‘ بھیڑیا اگر کھا جائے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے لیکن یہ موقف وزنی نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بھیڑیے کو اس کا مالک قرار نہیں دیا۔ سنن ابی داود میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر اس کا تلاش کرنے والا مل جائے تو اسے دے دو، اگر نہ ملے تو اس کے بیگ، بٹوہ اور بندھن کو پہچان لو، پھر اسے استعمال کر لو، اس کے بعد اگر مالک مل جائے تو اسے ادا کرو۔‘‘ (سنن أبي داود، اللقطة، حدیث:1707،1706) اس حدیث کے مطابق کھانے کی اجازت سے پہلے اور بعد دونوں صورتوں میں اسے واپس کرنے کا حکم ہے۔ (فتح الباري:106/5)