قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَظَالِمِ وَالغَصْبِ (بَابُ قِصَاصِ المَظَالِمِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَلاَ تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ، إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الأَبْصَارُ مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُءُوسِهِمْ} [إبراهيم: 43] «رَافِعِي، المُقْنِعُ وَالمُقْمِحُ وَاحِدٌ» وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {مُهْطِعِينَ} [إبراهيم: 43] مُدِيمِي النَّظَرِ، وَيُقَالُ مُسْرِعِينَ، {لاَ يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ} [إبراهيم: 43] يَعْنِي جُوفًا لاَ عُقُولَ لَهُمْ {وَأَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ العَذَابُ، فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا: رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ نُجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ، أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِنْ زَوَالٍ، وَسَكَنْتُمْ فِي مَسَاكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا [ص:128] لَكُمُ الأَمْثَالَ، وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ، وَإِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الجِبَالُ} [إبراهيم: 45] (فَلاَ تَحْسِبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ)

2440. حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا خَلَصَ الْمُؤْمِنُونَ مِنْ النَّارِ حُبِسُوا بِقَنْطَرَةٍ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَيَتَقَاصُّونَ مَظَالِمَ كَانَتْ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا حَتَّى إِذَا نُقُّوا وَهُذِّبُوا أُذِنَ لَهُمْ بِدُخُولِ الْجَنَّةِ فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَأَحَدُهُمْ بِمَسْكَنِهِ فِي الْجَنَّةِ أَدَلُّ بِمَنْزِلِهِ كَانَ فِي الدُّنْيَا وَقَالَ يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ قَتَادَةَ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُتَوَكِّلِ

مترجم:

ترجمۃ الباب: اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ ابراہیم میں فرمایا ” اور ظالموں کے کاموں سے اللہ تعالیٰ کو غافل نہ سمجھنا۔ اور اللہ تعالیٰ تو انہیں صرف ایک ایسے دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں پتھرا جائیں گی۔ اور وہ سر اوپر کو اٹھائے بھاگے جارہے ہوں گے۔ مقنع اور مقمح دونوں کے معنے ایک ہی ہیں۔ مجاہد نے فرمایا کہ مھطعین کے معنے برابر نظر ڈالنے والے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مھطعین کے معنی جلدی بھاگنے والا، ان کی نگاہ خود ان کی طرف نہ لوٹے گی۔ اور دلوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے کہ عقل بالکل نہیں رہے گی اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جس دن ان پر عذاب آ اترے گا، جو لوگ ظلم کر چکے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ! ( عذاب کو ) کچھ دنوں کے لیے ہم سے اور موخر کردے، تو اب کی بار ہم تیرا حکم سن لیں گے اور تیرے انبیاءکی تابعداری کریں گے۔ جواب ملے گا کیا تم نے پہلے یہ قسم نہیں کھائی تھی کہ تم پر کبھی ادبا رنہیں آئے گا؟ اور تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ چکے ہو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور تم پر یہ بھی ظاہر ہو چکا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ ہم نے تمہارے لیے مثالیں بھی بیان کر دی ہیں۔ انہوں نے برے مکر اختیا رکیے اور اللہ کے یہاں ان کے یہ بدترین مکر لکھ لئے گئے۔ اگرچہ ان کے مکر ایسے تھے کہ ان سے پہاڑ بھی ہل جاتے ( مگر وہ سب بیکار ثابت ہوئے ) پس اللہ کے متعلق ہرگز یہ خیال نہ کرنا کہ وہ اپنے انبیاءسے کئے ہوئے وعدوں کے خلا ف کرے گا۔ بلاشبہ اللہ غالب اور بدلہ لینے والا ہے۔ تشریح : ظالموں کے بارے میں ان آیات میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ محتاج وضاحت نہیں ہے۔ انسانی تاریخ میں کتنے ہی ظالم بادشاہوں، امیروں، حاکموں کے نام آتے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے وقتوں میں مخلوق خدا پر مظالم کے پہاڑ توڑے۔ اپنی خواہشات کے لیے انہوں نے زیر دستوں کو بری طرح ستایا۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا پکڑا کہ وہ مع اپنے جاہ و حشم کے دنیا سے حرف غلط کی طرح مٹ گئے اور ان کی کہانیاں باقی رہ گئیں۔ دنیا میں اللہ سے بغاوت کرنے کے بعد سب سے بڑا گناہ ظلم کرنا ہے یہ وہ گناہ ہے جس کے لیے خدا کے یہاں کبھی بھی معافی نہیں۔ جب تک خود مظلوم ہی نہ معاف کردے۔ مظالم کی چکی آج بھی برابر چل رہی ہے۔ آج مظالم ڈھانے والے اکثریت کے گھمنڈ میں اقلیتوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ نسلی غرور، مذہبی تعصب، جغرافیائی نفرت، ان بیماریوں نے آج کے کتنے ہی فراعنہ اور نماردہ کو ظلم پر کمربستہ کر رکھا ہے۔ الٰہی قانون ان کو بھی پکار کر کہہ رہا ہے کہ ظالمو ! وقت آرہا ہے کہ تم سے ظلموں کا بدلہ لیا جائے گا۔ تم دنیا سے حرف غلط کی طرف مٹا دیئے جاؤ گے۔ آنے والی نسلیں تمہارے ظلم کی تفصیلات سن سن کر تمہارے ناموں پر تھوتھو کر کے تمہارے اوپر لعنت بھیجیں گی۔ آیت شریفہ فلا تحسبن اللہ مخلف وعدہ رسلہ ان اللہ عزیز ذو انتقام ( ابراہیم : 47 ) کا یہی مطلب ہے۔ اس طرح کہ مظلوم کو ظالم کی نیکیاں مل جائیں گی۔ اگر ظالم کے پا س نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کی برائیاں اس پر ڈالی جائیں گی یا مظلوم کو حکم دیا جائے گا کہ ظالم کو انتی ہی سزا دے لے جو اس نے مظلوم کو دنیا میں دی تھی۔ اور جس بندے کو اللہ بچانا چاہے گا اس کے مظلوم کو اس سے راضی کر دے گا۔

2440.

حضرت ابو سعید خدری  ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جب اہل ایمان آگ سے خلاصی پالیں گے توانھیں دوزخ اور جنت کے درمیان ایک پُل پر روک لیا جائے گا۔ وہاں ان سے ان کے مظالم کابدلہ لیاجائے گاجو انھوں نے دنیا میں ایک دوسرے پر کیے تھے۔ جب وہ پاک صاف ہوجائیں گے تو پھر انہیں جنت کے اندر جانے کی اجازت ملے گی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے!ہر شخص جنت میں اپنے ٹھکانے کو اس سے بہتر طور پر پہچانے گاجس طرح وہ دنیا میں اپنے مسکن کو پہچانتا تھا۔‘‘ یونس بن محمد نے کہا: ہمیں شیبان نے قتادہ سے خبر دی، انھوں نے کہا: ہم سے ابوالمتوکل نے بیان کیا۔