تشریح:
(1) اگر کوئی شخص کسی کا حق ضبط کر لیتا ہے، بعد ازاں وہ معافی مانگ کر اسے راضی کر لیتا ہے تو معافی لینے والے کو دنیا و آخرت میں معافی ہو جائے گی اگرچہ اس نے معافی لیتے وقت ظلم کی نوعیت اور حق کی مقدار بیان نہ کی ہو۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ معافی تب ہو گی جب وہ ظلم کی وضاحت کرے۔ امام بخاری ؒ نے عنوان میں اس کے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا لیکن حدیث میں معافی کا اطلاق اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جب معاف کر دیا جائے تو اس کی مقدار بیان کرے یا نہ کرے دونوں طرح صحیح ہے۔ (2) ہمارا رجحان یہ ہے کہ حقوق دو طرح کے ہیں: اخلاقی، مثلاً: غیبت اور عیب جوئی وغیرہ۔ اس قسم کے حقوق کے لیے معافی لیتے وقت وضاحت ضروری نہیں کیونکہ بعض اوقات وضاحت سے معاملہ مزید بگڑ جاتا ہے۔ دوسرے مالی حقوق ہیں، اگر حق دار اس کا مطالبہ کرے تو وضاحت کر دی جائے بصورت دیگر انہیں مجمل رکھا جا سکتا ہے اور معافی کے بعد اس کا عنداللہ کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ (3) قرآن کریم میں ہے: ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ﴾ ’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گی۔‘‘ (فاطر18:35) یہ قرآنی نص مذکورہ حدیث کے خلاف نہیں کیونکہ ظالم پر جو مظلوم کی برائیاں ڈالی جاتی ہیں وہ دراصل اس ظالم کی کمائی کا نتیجہ ہوں گی۔ (فتح الباري:127/5)