تشریح:
(1) اس سے معلوم ہوا کہ جو انسان جان بوجھ کر کسی ناحق بات پر جھگڑ کر کسی کا حق لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ جہنم کا مستحق ہے، نیز قاضی کے فیصلے سے کوئی ناحق چیز جائز نہیں ہو جاتی، اس کا فیصلہ ظاہری طور پر نافذ العمل ہو گا، باطنی طور پر نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ اور ناحق لینے والے کے درمیان وہ فیصلہ نافذ نہیں ہو گا بلکہ قیامت کے دن ضرور بازپرس ہو گی۔ (2) جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: میں، صورت واقعہ جس شکل میں پیش کی جاتی ہے اسے سامنے رکھ کر فیصلہ دے دیتا ہوں۔ اگر کوئی اپنی چرب زبانی سے بازی جیت لیتا ہے اور میرے فیصلے سے کسی کا حق مارتا ہے تو وہ جو کچھ لے رہا ہے وہ آگ کا ٹکڑا ہے اسے قبول کرے یا ترک کر دے، یعنی وہ کسی کا حق لینے میں خود ذمہ دار ہے میرا فیصلہ اس کے لیے وہ چیز جائز نہیں کر دے گا۔