تشریح:
(1) سچا مومن کبھی جھوٹ نہیں بولتا، اسی طرح وہ مخالفت کے اظہار میں بھی حدود کا پاس رکھتا ہے۔ آپے سے باہر ہو کر گالی گلوچ اور ناروا باتوں پر نہیں اترتا کہ وہ جھگڑے کے وقت بے لگام بن جائے اور جو منہ میں آئے بکنے لگے، کیونکہ ایسا کرنا منافقانہ خصلت ہے۔ (2) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو مذکورہ خصلتوں پر اصرار کرتا ہے اور ان باتوں کا عادی بن چکا ہے تو ایسے شخص کو منافق کہنا بہتر ہے لیکن جو کبھی کبھار ان خصلتوں کا مرتکب ہوتا ہے اور کبھی انہیں ترک کر دیتا ہے وہ منافق نہیں، یا وہ عملی منافق ہے اعتقادی منافق نہیں۔ چونکہ یہ خصلتیں نفاق کی علامتیں ہیں، اس لیے بعض احادیث میں تین اور بعض میں چار کا ذکر ہوا ہے۔