Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: The curse of the oppressed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2467.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن (کاگورنر بنا کر) بھیجا تو ان سے فرمایا: ’’مظلوم کی بددعا سے بچتے رہنا کیونکہ اس کی بددعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔‘‘
تشریح:
(1) پردہ حائل نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مظلوم کی بددعا بہت جلد قبول ہوتی ہے، چنانچہ امام ابن ابی شیبہ ؓ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مظلوم اگرچہ فاجر ہو اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ اپنے فسق کا وبال وہ خود بھگتے گا بہرحال اس کی دعا مسترد نہیں ہوتی۔‘‘ (المصنف لابن أبي شیبة:96/10، و الصحیحة للألباني، تحت حدیث:767) (2) اس کا مفہوم یہ نہیں کہ ظالم فوراً اللہ کی پکڑ میں آ جاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتا ہے اس سے معاملہ کرتا ہے۔ کبھی فوراً سزا دے دیتا ہے اور کبھی دیر سے مؤاخذہ کرتا ہے تاکہ وہ مزید ظلم کرے، بالآخر اسے اچانک پکڑ لیتا ہے۔ بہرحال ظالم کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ میں نے ظلم کیا لیکن کچھ بھی سزا نہیں ملی۔ اللہ کے ہاں مہلت تو مل سکتی ہے لیکن اندھیر ممکن نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2364
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2448
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2448
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2448
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن (کاگورنر بنا کر) بھیجا تو ان سے فرمایا: ’’مظلوم کی بددعا سے بچتے رہنا کیونکہ اس کی بددعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) پردہ حائل نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مظلوم کی بددعا بہت جلد قبول ہوتی ہے، چنانچہ امام ابن ابی شیبہ ؓ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مظلوم اگرچہ فاجر ہو اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ اپنے فسق کا وبال وہ خود بھگتے گا بہرحال اس کی دعا مسترد نہیں ہوتی۔‘‘ (المصنف لابن أبي شیبة:96/10، و الصحیحة للألباني، تحت حدیث:767) (2) اس کا مفہوم یہ نہیں کہ ظالم فوراً اللہ کی پکڑ میں آ جاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتا ہے اس سے معاملہ کرتا ہے۔ کبھی فوراً سزا دے دیتا ہے اور کبھی دیر سے مؤاخذہ کرتا ہے تاکہ وہ مزید ظلم کرے، بالآخر اسے اچانک پکڑ لیتا ہے۔ بہرحال ظالم کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ میں نے ظلم کیا لیکن کچھ بھی سزا نہیں ملی۔ اللہ کے ہاں مہلت تو مل سکتی ہے لیکن اندھیر ممکن نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا بن اسحاق مکی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن عبداللہ صیفی نے، ان سے ابن عباس ؓ کے غلام ابومعبد نے، اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے معاذ ؓ کو جب (عامل بنا کر) یمن بھیجا، تو آپ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) sent Mu'adh to Yemen and said, "Be afraid, from the curse of the oppressed as there is no screen between his invocation and Allah."