تشریح:
(1) اس روایت میں عُليه کا لفظ آیا ہے جو بالاخانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پچھلی روایت میں مشربه کا لفظ آیا تھا جو مکان کے سامنے پینے پلانے کے کمرے کو کہتے ہیں، اسے بالاخانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اب ان کے درمیان امتیازی خصوصیت ختم ہو گئی ہے، اسے ہر کمرے کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے جو مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے بنایا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب اپنی بیویوں سے ناراض ہو کر ان سے علیحدگی اختیار کی تو اس بالاخانے میں قیام فرمایا جس کا حدیث میں ذکر ہے۔ یہ واقعہ نو ہجری کو پیش آیا لیکن راوی نے غلط فہمی کی بنا پر اس میں پاؤں میں موچ آنے کا ذکر بھی کر دیا ہے۔ پاؤں میں موچ آنے کا واقعہ پانچ ہجری کا ہے جب رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گِر پڑے تھے۔ ان دونوں واقعات میں چار سال کا فاصلہ ہے۔ حضرت انس ؓ سے جب حمید طویل بیان کرتے ہیں تو وہ بعض اوقات ان دونوں واقعات کو اکٹھا کر دیتے ہیں، دیگر راوی صرف قسم اٹھانے کے واقعے کو بیان کرتے ہیں۔ (2) رسول اللہ ﷺ کو جب چوٹ لگی تو اس وقت بھی آپ نے اسی بالا خانے میں آرام فرمایا تھا۔ صحابۂ کرام ؓ آپ کی تیمارداری کے لیے تشریف لاتے اور آپ اسی کمرے میں نمازیں ادا کرتے تھے۔ بہرحال امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مکان کی چھت پر بالاخانہ بنانا جائز ہے بشرطیکہ پڑوسیوں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔ واللہ أعلم