تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصود غلام کی آزادی سے متعلق مسائل و احکام بیان کرنا نہیں بلکہ اس مقام پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی چیز دو یا زیادہ آدمیوں کے درمیان مشترک ہے اور ان میں سے کوئی اپنی کسی مجبوری کے پیش نظر الگ ہونا چاہتا ہے تو اس کی مجبوری سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے بلکہ عدل و انصاف کے مطابق اس چیز کی قیمت لگا کر اس کا حصہ الگ کر دیا جائے جیسا کہ ان احادیث میں مشترکہ غلام کی عدل و انصاف کے مطابق قیمت لگانے کی تلقین کی گئی ہے۔ (2) ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو ضروری ہے کہ وہ اپنے مال سے غلام کو پورا آزاد کرائے۔ اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے تو غلام خود اس بات کی کوشش کرے کہ وہ باقی حصہ ادا کرنے میں اس کا مددگار بنے، لیکن اس سلسلے میں غلام پر تشدد نہ کیا جائے۔