تشریح:
(1) اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ بکریوں کی تقسیم جائز ہے اور ان میں عدل کا طریقہ یہ ہے کہ ان میں چھوٹی بڑی کو الگ الگ نہ کیا جائے۔ بکریاں کچھ بڑی ہوتی ہیں، کچھ چھوٹی، اسی طرح کچھ موٹی تازی اور طاقتور ہوتی ہیں اور کچھ دبلی پتلی اور کمزور، یہ تمیز کیے بغیر انہیں تقسیم کیا جائے۔ ان میں عدد کا اعتبار ہو گا قیمت کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا بشرطیکہ فرق زیادہ نہ ہو جیسا کہ حضرت عقبہ ؓ نے تھوڑے سے فرق کا اعتبار نہیں کیا، البتہ زیادہ فرق کا اعتبار ہو گا کیونکہ تقسیم کرتے وقت ان کے لیے صرف بکری کا ایک بچہ رہ گیا تو رسول اللہ ﷺ نے خصوصیت کے ساتھ صرف ان کو یہ بچہ بطور قربانی ذبح کرنے کی اجازت دی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بکریوں میں زیادہ فرق ہو تو تقسیم کے وقت اس کا اعتبار کرنا ہو گا، البتہ چھوٹی بڑی بکری کے فرق سے چشم پوشی کرنا ہو گی۔ (2) واضح رہے کہ حقوق واجبہ اور قانونی تقسیم میں مساوات کا خیال رکھنا ہو گا، وہاں وزن یا قیمت سے تقسیم ہو گی کیونکہ ایسے حقوق میں کمی بیشی نہیں کی جا سکتی اور نہ کسی پر ظلم اور غبن ہی ہو سکتا ہے۔ واللہ أعلم