تشریح:
(1) اگرچہ اس حدیث میں حضر میں رہن رکھنے کا ذکر نہیں، تاہم امام بخاری ؓ نے اس حدیث کے بعض طرق کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ میں ایک یہودی کے پاس گروی رکھی تھی اور اس سے اپنے اہل خانہ کے لیے جو لیے تھے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2069) یہودی کا نام ابو شحم اور وہ بنو ظفر سے تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ذات الفضول نامی زرہ گروی رکھی اور اس سے تیس صاع جو ادھار لیے۔ مسند امام احمد میں ہے کہ آپ کی وفات تک وہ زرہ گروی رہی۔ (مسند أحمد:238/3) حضرت ابوبکر ؓ نے قرض دے کر وہ زرہ واپس لی۔ (فتح الباري:174/5) (2) رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کے بجائے ایک یہودی سے ادھار کا معاملہ کیا۔ اس کی کئی ایک وجوہات علماء نے بیان کی ہیں: ایک یہ ہے کہ ان دنوں صحابۂ کرام ؓ کے پاس فالتو غلہ نہ تھا، اس لیے مجبوراً ایک یہودی سے یہ معاملہ کرنا پڑا۔ دوسری یہ کہ آپ اس بات کا بخوبی علم رکھتے تھے کہ صحابۂ کرام تکلف کریں گے اور آپ کو بلا معاوضہ غلہ دیں گے، خواہ مخواہ انہیں تنگ ہونا پڑے گا۔ اس بنا پر خاموشی سے یہ معاملہ کر لیا۔ (فتح الباري:175/5) واللہ أعلم