قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الرَّهْنِ (بَابُ الرَّهْنِ فِي الحَضَرِ )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَإِنْ كُنْتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَقْبُوضَةٌ} [البقرة: 283]

2508. حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَلَقَدْ رَهَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِرْعَهُ بِشَعِيرٍ، وَمَشَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخُبْزِ شَعِيرٍ وَإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ، وَلَقَدْ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: «مَا أَصْبَحَ لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا صَاعٌ، وَلاَ أَمْسَى وَإِنَّهُمْ لَتِسْعَةُ أَبْيَاتٍ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ پاک نے سورۃ بقرہ میں فرمایا اگر تم سفر میں ہو اور کوئی لکھنے والا نہ ملے تو رہن قبضہ میں رکھ لو  (باب تشریح) تشریح : رہن کے معنی ثبوت یا رکنا اور اصطلاح شرع میں رہن کہتے ہیں قرض کے بدل کوئی چیز رکھوادینے کو مضبوطی کے لیے کہ اگر قرض ادا نہ ہو تو مرتہن اس چیز سے اپنا قرض وصول کرلے۔ جو شخص رہن کی چیز کا مالک ہو اس کو راہن اور جس کے پاس رکھا جائے اس کو مرتہن اور اس چیز کو مرہون کہتے ہیں۔ رہن کے لغوی معنی گروی رکھنا، روک رکھنا، اقامت کرنا، ہمیشہ رہنا۔ مصدر ارہان کے معنی گروی کرنا۔ قرآن مجید کی آیت کل نفس بما کسبت رھین ( المدثر: 38 ) میں گروی مراد ہے۔ یعنی ہر نفس اپنے اعمال کے بدلے میں اپنے آپ کو گروی کرچکا ہے۔ حدیث نبوی کل غلام رہینۃ بعقیقتہمیں بھی گروی مراد ہے۔ ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ہاتھ میں گروی ہے۔ بعض نے کہا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ جس بچے کا عقیقہ نہ ہوا اور وہ مرگیا تو وہ اپنے والدین کی سفارش نہیں کرے گا۔ بعض نے عقیقہ ہونے تک بچے کا بالوں کی گندگی وغیرہ میں مبتلا رہنا مراد لیا ہے۔ مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق رہن کے جواز کے لیے آیت قرآنی سے استشہاد فرمایا۔ پھر سفر کی خصوصیت کا شبہ پیدا ہورہا تھا کہ رہن صرف سفر سے متعلق ہے، اس لیے لفظ ” حضر “ کا بھی اضافہ فرماکر اس شبہ کو رد کیا اور حضر میں رہن کا ثبوت حدیث نبوی سے پیش فرمایا جو کہ آگے مذکور ہے۔ جس میں یہودی کے ہاں آپ نے اپنی زرہ مبارک گروی رکھی۔ اس کا نام ابوشحم تھا اور یہ بنوظفر سے تعلق رکھتا تھا جو قبیلہ خزرج کی ایک شاخ کا نام ہے۔ (ترجمۃ الباب) یہ باب لاکر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ بتلایا کہ قرآن شریف میں جو یہ قید ہے و ان کنتم علي سفر ( البقرۃ: 283 ) یہ قید اتفاقی ہے اس لیے کہ اکثر سفر میں گروی کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضر میں گروی رکھنا درست نہیں۔

2508.

حضرت انس  ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو کے عوض اپنی زرہ گروی رکھی۔ اور میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جو کی روٹی اور باسی چربی لے کرحاضر ہواتھا اور میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’محمد ﷺ کے گھر والوں پر کوئی صبح یا شام ایسی نہیں گزری کہ ان کے پاس ایک صاع سے زیادہ رہا ہو۔‘‘ حالانکہ آپ کے نوگھر ہوتے تھے۔