باب: مشترک چیزوں کی انصاف کے ساتھ ٹھیک قیمت لگا کر اسی شریکوں میں بانٹنا
)
Sahi-Bukhari:
Partnership
(Chapter: To get a joint property evaluated with a price)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2510.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا اور اس کے پاس اتنا (مال) ہو جو منصفانہ قیمت کے مطابق اس غلام کی قیمت کے برابر ہوسکتا ہوتو وہ غلام آزاد ہے، بصورت دیگر اتنا آزاد ہوجائے گا جتنا اس نے آزاد کردیا۔‘‘ (راوی حدیث) ایوب نے کہا: ’’اتنا آزاد ہوجائے گا جتنا اس نے آزاد کیا ہے۔‘‘ مجھے معلوم نہیں کہ نافع کا قول ہے یا نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے؟
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2407
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2491
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2491
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2491
تمہید کتاب
لغوی طور پر "شراکت" کے معنی شامل ہونے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں دو یا زیادہ افراد کا ایک چیز میں حق دار ہونا شراکت کہلاتا ہے۔ شراکت کی دو بڑی قسمیں ہیں: ٭ شرکتِ املاک۔ ٭ شرکت عقود۔٭ شرکتِ املاک: ملکیت میں شرکت، مثلاً: چند آدمیوں کو وراثت میں یا بطور ہبہ کوئی جائیداد یا نقد روپیہ ملا یا انہوں نے مل کر کوئی چیز خریدی، تو ملکیت میں سب شریک ہوں گے۔ اس میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: ٭ اختیاری ٭ غیر اختیاری۔ اختیاری یہ ہے کہ شرکاء مل کر کوئی جائیداد خرید لیں اور غیر اختیاری یہ ہے کہ شرکاء کی مرضی اور اختیار کے بغیر ہی انہیں کسی چیز میں شریک مان لیا جائے، مثلاً: وراثت میں ملنے والے مال میں شریک ہو جائیں۔ شراکت کی اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جتنے لوگ شریک ہوں، ان میں سے کسی ایک کو مشترکہ جائیداد میں تصرف کا حق نہیں ہے الا یہ کہ تمام شرکاء اجازت دے دیں۔٭ شرکتِ عقود: اس شرکت میں تمام شرکاء باہمی طور پر ایک معاہدے کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بندھ جاتے ہیں اور اس کی شرائط کے پابند ہوتے ہیں۔ اس میں ایجاب و قبول ضروری ہے۔ اس میں دو یا دو سے زیادہ آدمی تھوڑا تھوڑا مال فراہم کر کے آپس میں یہ طے کر لیں کہ ہم سب مل کر اس مال سے فلاں کام کریں گے اور جو نفع ہو گا اسے آپس میں مناسب شرح میں تقسیم کر لیں گے۔ یہ اقرار زبانی بھی ہو سکتا ہے اور تحریری بھی، لیکن موجودہ دور میں شرکت عقود کو تحریر میں لانا بہت ضروری ہے۔ اس معاہدے میں ہر فرد کو یہ حق ہوتا ہے کہ جب چاہے اس معاہدے کو ختم کر کے شراکت سے الگ ہو جائے لیکن دوسرے شرکاء کو قبل از وقت مطلع کرنا ضروری ہے۔ اگر شرکاء میں سے کوئی فوت ہو جائے تو معاہدہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے لیکن متوفی کے ورثاء چاہیں تو اس کی تجدید کر کے اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔شراکت کا کاروبار بڑے پیمانے پر چلانے کے لیے شرکاء میں سے چند آدمیوں کو کاروبار چلانے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ چونکہ ان کا وقت زیادہ خرچ ہو گا یا وہ اضافی صلاحیت رکھتے ہوں گے، اس لیے انہیں منافع سے کچھ زیادہ حصہ بھی دیا جا سکتا ہے۔یہ شراکت مال میں بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی محنت میں بھی۔ شراکت میں سرمائے کا برابر ہونا ضروری نہیں اور نہ نفع ہی میں برابری شرط ہے، تاہم منافع کی تقسیم اور اس کی مقدار روز اول ہی سے صاف صاف بیان کر دینا ضروری ہے کہ کس کو کتنا ملے گا، نیز اس میں ہر ایک شریک مشترکہ مال کا امین بھی ہوتا ہے اور وکیل بھی۔ امین کی حیثیت سے مال کی حفاظت کرنا ہو گی اور وکیل کی حیثیت سے ہر ایک کو کاروبار کے نظم اور تصرف میں برابر کا اختیار حاصل ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے شراکت کے متعلق ضروری ضروری اقسام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ستائیس مرفوع احادیث اور ایک اثر بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث میں ایک معلق اور باقی چھبیس متصل اسانید سے مروی ہیں۔ ان میں تیرہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔ احادیث پر سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے گئے ہیں، جن میں چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ کھانے، زاد سفر اور دیگر اسباب میں شرکت۔ ٭ بکریوں کی تقسیم۔ ٭ تقسیم میں قرعہ اندازی۔ ٭ شرکاء میں منصفانہ قیمت ٹھہرانا۔ ٭ زمین کے معاملات میں شراکت۔ ٭ تقسیم کے بعد رجوع نہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی باریک بینی سے احکام شراکت کو مرتب فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مطابق ہمیں عمل کی توفیق دے۔ والله ولي التوفيق وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم
تمہید باب
باب کے ذیل میں حافظ صاحب فرماتے ہیں قال ابن بطال لا خلاف بین العلماءان قسمة العروض و سائر الامتعة بعد التقویم جائز و انما اختلفوا ف قسمتھا بغیر تقویم فاجازہ الاکثر اذا کان علی سبیل التراضی الخ ( فتح الباری ) یعنی جملہ سامان و اسباب کا جب ٹھیک طور پر اندازہ کرلیا جائے تو اس کی تقسیم جملہ علماءکے نزدیک جائز ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ہاں بغیر اندازہ کئے تقسیم میں اختلاف ہے۔ جب باہمی طور پر کسی کو اعتراض نہ ہو اور سب راضی ہوں تو اکثر کے نزدیک یہ بھی جائز ہے۔ کتاب الشرکتہ کے اس باب سے یہ دسواں پارہ شروع ہورہا ہے جس میں شرکت سے متعلق بقایامسائل بیان کئے جارہے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک قلم کو لغزش سے بچائے اور خیریت کے ساتھ اس پارے کی بھی تکمیل کرائے۔ آمین۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا اور اس کے پاس اتنا (مال) ہو جو منصفانہ قیمت کے مطابق اس غلام کی قیمت کے برابر ہوسکتا ہوتو وہ غلام آزاد ہے، بصورت دیگر اتنا آزاد ہوجائے گا جتنا اس نے آزاد کردیا۔‘‘ (راوی حدیث) ایوب نے کہا: ’’اتنا آزاد ہوجائے گا جتنا اس نے آزاد کیا ہے۔‘‘ مجھے معلوم نہیں کہ نافع کا قول ہے یا نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے؟
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمران بن میسرہ ابوالحسن بصری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے، کہا ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص مشترک (ساجھے) کے غلام میں اپنا حصہ آزاد کردے اور اس کے پاس سارے غلام کی قیمت کے موافق مال ہو تو وہ پورا آزاد ہوجائے گا۔ اگر اتنا مال نہ ہو تو بس جتنا حصہ اس کا تھا اتنا ہی آزاد ہوا۔ ایوب نے کہا کہ یہ مجھے معلوم نہیں کہ روایت کا یہ آخری حصہ ”غلام کا وہی حصہ آزاد ہوگا جو اس نے آزاد کیا ہے“ یہ نافع کا اپنا قول ہے یا نبی کریم ﷺ کی حدیث میں داخل ہے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی سارے غلام کی غلامی کی حالت میں قیمت لگائیں گے یعنی جو حصہ آزاد ہوا اگر وہ بھی آزاد نہ ہوتا تو اس کی قیمت کیا ہوتی۔ اگر اتنا مال نہ ہو تو بس جتنا حصہ اس کا تھا اتنا ہی آزاد ہوا۔ عینی نے اس مسئلہ میں چودہ مذہب بیان کئے ہیں۔ لیکن امام احمد ؒ اور شافعی ؒ اور اسحاق ؒنے اسی حدیث کے موافق حکم دیا ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں دوسرے شریک کو اختیار رہے گا خواہ اپنا حصہ بھی آزاد کردے خواہ غلام سے محنت مشقت کراکر اپنے حصہ کے دام وصول کرے۔ خواہ اگر آزاد کرنے والا مال دار ہو تو اپنے حصے کی قیمت اس سے بھرلے۔ پہلی اور دوسری صورت میں غلام کا ترکہ دونوں کو ملے گا اور تیسری صورت میں صرف آزاد کرنے والے کو۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ غلام کی ٹھیک ٹھیک قیمت لگاکر اس کے جملہ مالکوں پر اسے تقسیم کردیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi (RA): Ibn 'Umar (RA) said, "Allah's Apostle (ﷺ) said, 'If one manumits his share of a jointly possessed slave, and can afford the price of the other shares according to the adequate price of the slave, the slave will be completely manumitted; otherwise he will be partially manumitted.' " (Aiyub, a sub-narrator is not sure whether the saying " ... otherwise he will be partially manumitted" was said by Nafi' or the Prophet.)