تشریح:
(1) کعب بن اشرف ایک یہودی سردار تھا۔ جنگ بدر میں جب قریش کے بڑے بڑے طاغوت مارے گئے تو اس نے اہل مکہ کو اسلام اور اہل اسلام کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا۔ اپنے اشعار میں مسلمان عورتوں کا مذاق اُڑاتا اور رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔ (2) شارح بخاری ابن منیر کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے ’’زرہ گروی رکھنے‘‘ کے بعد مذکورہ عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ زرہ ایک دفاعی ہتھیار ہے، جارحانہ نہیں۔ امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ جارحانہ ہتھیار بھی گروی رکھا جا سکتا ہے۔ اس استدلال پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ روایت میں ہتھیار گروی رکھنے کی بات بطور چال تھی، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، لیکن چال ہونے کے باوجود کعب بن اشرف کو یہ باور کرایا گیا کہ تیرے ساتھ جو معاملہ کر رہے ہیں یہ ہمارے ہاں جائز اور مباح ہے، اس پر معاملہ ہوا۔ امام بخاری ؒ نے اس سے استدلال کر لیا۔ (فتح الباري:177/5) (3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے حق میں گستاخی کرنے والے کی سزا قتل ہے اگرچہ وہ ذمی ہی کیوں نہ ہو، لیکن امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک ایسے شخص کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔ اس مقام پر علامہ عینی ؒ نے بڑی جراءت اور ہمت سے کہا: میں بھی اس بات کا قائل ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کو گالی دینے والا مطلق طور پر واجب القتل ہے، خواہ کوئی بھی ہو۔ (عمدة القاري:30/5) علمائے حق کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ حق کی پیروی کرتے ہیں، خواہ وہ حق ان کے اپنے کسی محبوب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ کی محبت اور آپ کی اتباع کا یہی تقاضا ہے۔