تشریح:
(1) صحیح مسلم کی ایک روایت میں ضائعا کے بجائے صانعا کے الفاظ ہیں (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:250 (84)) جس کے معنی ہنرمند اور کاریگر کے ہیں، اس کے متعلق شارح بخاری ابن منیر فرماتے ہیں کہ ہنرمند محتاج کی مدد کرنا بے ہنر کے تعاون سے افضل ہے کیونکہ بے ہنر کی ہر کوئی مدد کرتا ہے لیکن ہنر مند کی مدد کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا کیونکہ اس کی شہرت لوگوں کو اس کے تعاون سے غافل کر سکتی ہے، اس لیے ہنرمند کے لیے دست تعاون بڑھانا گویا سفید پوش اور خودار کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مومن کا اصل درجہ یہ ہے کہ وہ تکلیف پہنچانے سے بچے۔ (فتح الباري:186/5) گر قوت نیکی نہ داری بدی مکن، یعنی اگر تم کسی کے ساتھ بھلائی اور نیکی نہیں کر سکتے تو برائی بھی نہ کرو۔