تشریح:
(1) انسان کے دل میں جو خیالات آتے ہیں اگر وہ برائی پر آمادہ کریں تو انہیں وسوسہ کہا جاتا ہے اور اگر کار خیر کی دعوت دیں تو یہ الہام ہے۔ اس امت کی خصوصیت ہے کہ ان کے قلوب پر آنے والے خطرات معاف ہیں جب تک وہ دل میں پختہ نہ ہوں، یعنی ان پر عمل نہ کیا جائے یا انہیں زبان پر نہ لایا جائے۔ اگر دل میں قرار پکڑ لیں جیسا کہ حسد وغیرہ میں ہوتا ہے تو اس پر مؤاخذہ ہو گا، اسی وجہ سے هم (ارادہ) اور عزم میں فرق کیا جاتا ہے کیونکہ هم (ارادہ) وہ ہے جو دل میں آئے اور گزر جائے اور عزم وہ ہے جو دل میں آئے اور ٹھہر جائے۔ (2) اس حدیث کا عنوان سے اس طرح تعلق ہے کہ جب وسوسے اور دل کے خیال پر پکڑ نہیں تو جو چیز خالی زبان سے ازراہ بھول چوک نکل جائے تو اس پر بطریق اولیٰ مؤاخذہ نہیں ہو گا یا وسوسے اور دل کے خیال پر مؤاخذہ اس لیے نہیں کہ وہ دل میں آتا ہے اور گزر جاتا ہے اس طرح جو کلام زبان پر آئے اور گزر جائے اس کا کوئی ارادہ یا نیت نہ ہو اس کا حکم بھی وسوسے کی طرح ہو گا کیونکہ دل اور زبان دونوں انسانی اعضاء ہیں اور دونوں کا حکم ایک ہے، اس لیے اگر بھول چوک اور نیت کے بغیر طلاق اور عتاق کا لفظ زبان پر آ جائے تو قانونی طور پر اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ واللہ أعلم